کل عید ہوگی یا پرسوں؟۔ یہ بات گاؤں کے ہر دوسرے شخص کی زبان پر تھی۔ اس گفتگو کو مدتیں نہیں ہوئیں، بس ہمارے گاؤں میں بجلی، ٹی وی کا دور زرا دیر سے آیا۔ روزہ افطار کرتے ہی ، تمام مرد مغرب کی نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد کی طرف جارہے تھے کہ اتنے میں آواز آئی وہ دیکھو چاند ۔۔۔۔۔
نماز کے بعد سارا گاؤں مسجد کے صحن میں کھڑا چاند کو ڈھونڈنے میں مشغول ہے۔ اور میں گھر میں بیٹھا ریڈیو پر ہلال کمیٹی کے اعلان کے انتظار میں۔۔ بہر حال ہلال کمیٹی کے ڈھونڈنے سے پہلے ہی ہمارے گاؤں میں چاند ڈھونڈ لیا گیا تھا ۔
مسجد کے سپیکر میں عید کے اعلان کی آواز کے ساتھ بچوں کی سرگوشیاں اور قہقہے بھی گونج رہے تھے۔ مگر تب بچوں کی خوشیوں سے اللہ ناراض نہیں ہوتا تھا ۔ اب تو مسجد میں کم سن پھولوں کی شرارتوں سے بھی مولوی صاحب کو اللہ کی ناراضی کا گمان ہوتا ہے ۔
اور پھر مولوی صاحب کی ڈانٹ ڈپٹ سے وہ بچہ تاعمر مسجد جانے سے کتراتا ہے ۔ خیر موضوع تو عید ہے یہ رونا دھونا کسی اور تحریر کےلیے رکھ چھوڑتے ہیں ۔
بچے گھروں کو دوڑ پڑتے ہیں ۔ اور اب وقت ہوا چاہتا ہے خواتین کی بے تحاشا مشقت کا۔ سب سے پہلے استری میں کوئلے ڈالنا۔۔۔ پھر مٹی کے تیل اور کوئلوں کی مدد سے گرم کی گئی استری سے کپڑے استری کرنا اور پھر آدھی رات حلوے کے ساتھ کھپ ڈالے رکھنا( بعض گھروں میں رسم حلوہ پکائی عید کے روز شام کو بھی ہوتی)۔۔۔۔کیونکہ میں ایک تلہ گنگیا ہوں تو ہماری سائیڈ پر مکھڈی حلوے کے بغیر عید اور دوسرے تہوار نامکمل سمجھے جاتے ہیں۔کڑاہی اور شپیتا لیے مائیں ، دادیاں حلوہ پکانے میں مشغول ہوجاتیں ہیں۔لڑکے کھیلنے میں۔۔ اور لڑکیاں مہندی لگانے میں۔۔
کچھ گھروں میں عید کی صبح جبکہ بعض گھروں میں شام کے وقت پتلی سی روٹی میں مکھڈی حلوہ ڈال کر بیٹیوں ، بہنوں اور گاؤں کے سیپیوں (پرانے وقتوں میں کچھ لوگ جیسا کہ نائی، موچی ، میراثی کام کے بدلے دانے لیتے تھے ،اسے سیپی کہا جاتا) کو دیا جاتا جسے عرف عام میں ڈھاراڑی کہا جاتا۔ یہ کام عموماً بچوں کے حصے میں آتا اور یہیں سے عیدی جمع کرنے کے سلسلے کا آغاز بھی ہوتا۔
اور پھر یوں ہوا کہ شہروں کی ہوا نےعید کے ان سب مناظر کو ہوا کر دیا۔ مگر کالج کے دور میں تقریبا دو سال پھر مکھڈی حلوہ کھانے کو ملتا رہا۔ سین کچھ یوں ہوا کہ ہم میٹرک کے بعد اعلی تعلیم کے لیے کلرکہار کے معروف تعلیمی ادارے ” سائنس کالج” چلے گئے ۔
جس روز بھی بارش ہوتی،کالج میں موجود بابے طلباء کی کینٹین پر مکھڈی حلوہ کھانے کو ضرور ملتا۔کالج میں میرا دوست رفاص ، میرا گرائیں تھا اور بابا طالبان بھی، سو خوب حلوہ کھایا۔جب یہ تحریر لکھ رہا ہوں تو سرگودھا میں ہوں، چار سالوں میں ادھر مکھڈی حلوہ تو نہیں دیکھا۔ مگر سموسہ چاٹ کے اوپر کیلے ضرور دیکھے ہیں۔