کچھ خدشات کتنے خطرناک ہوتے ہیں ۔ جیسے ہی دل و دماغ میں آتے ہیں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے روح نکل جائے گی ۔ انسان پر کتنا بھاری بوجھ ہوتے ہیں یہ خدشات ۔۔۔۔ اندر ہی اندر جیسے طوفان سا اٹھ جاتا ہے اور سکون و اطمینان کی تمام عمارتوں کو مسمار کردیتا ہے ۔
جیسے چیخنے کو دل کرے ۔ جیسے جلدی سے آزاد ہونے کو دل کرے ۔ لیکن ہر طرف تو پنجرہ ہے جیسے انسان قید سا ہوگیا یے ۔ بے بسی بغاوت پر آمادہ کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے ۔ کاش وہ آنسو ہی نکل آئیں جو انسان کو ہلکا کردیتے ہیں لیکن آنسو بھی تو بے وفا نکلے ۔
مردانگی کے مان کے آگے ہار گئے اور غم ہلکا کرنے سے فرار ہوگئے ۔ کون ہے جو فرسان حال بنے ۔ جو کندھا دے اور مان بنے ۔ دل کو سمجھائے اور غمخوار بنے ۔ چاروں طرف چھائے اندھیرے ، وحشت ، دہشت ، خوف ، ڈر ، فکر ، غم کے سانپوں سے نجات دلوائے ۔ زندگی گلزار ہوجائے ۔
جب میں تھک گیا ، ڈھے گیا ، ہار گیا ، شکست کھاگیا ، اکتا گیا امید ہار گیا تو من کی دنیا سے ہلکی سی آواز سنی جو ہولے ہولے تیز ہوتی گئی جیسے ہلکی سی روشنی کی پو پھوٹی ہو اور روشنی پھیلتی ہی جائے ۔ فطرت کی آوازیں یہ صدائیں لگا رہیں تھیں نحن اقرب الیہ من حبل الورید وہ تو تیری شہہ رگ سے بھی نزدیک ہے جس نے موسی کو سمندر ، ابراہیم کو آگ ، عیسی کو یہود ، اور محمد کریم ص کو دشمنوں سے بچا کر قدرت کاملہ اظہار کردیا ۔
جس نے لامحدود کائنات کو اس انداز سے مستحکم کیا کہ کمی کا شائبہ تک نہیں ۔ دیو ہیکل پہاڑ ، ٹھاٹیں مارتا سمندر ، ان گنت ذرات کے صحرا ، کڑکتی بجلیاں ، دھاڑتے ہوئے شیر ، چنگارتے ہوئے ہاتھی ، سنسناتی ہوئی ہوائیں ، چمکتا چاند ، دہکتا سورج ، ٹمٹماتے تارے سب اسی کے کنٹرول میں ہیں تو تیرے غم کیا اس کی قدرت سے باہر ہیں ؟ تو چلتے ہوئے یا رب جی کہہ وہ دوڑتے ہوئے یا عبدی کہے گا ۔