تاریخ گواہ ہے کہ فلاح و کامرانی اور نفع مندی کے تمام اعمال انبیا کا شیوہ رہے اور انہی اعمال کا بدلہ جنت ہے۔ انبیا ہمیشہ لوگوں کے لئے منارۂ نور (روشنی کا مینار) بنے۔ انبیا نے دنیا کے تمام معزز اور عظیم کام سر انجام دئیے۔ انبیا نے انسانوں کو جنت کا راستہ دکھایا انہیں رب کی طرف بلایا اور معصیت میں پڑنے سے ڈرایا اور آج یہ ہی امت مسلمہ کا مقصد حیات ہے۔
الله رب العزت کا فرمان ہے:
کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ تَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ ؕ ﴿۱۱۰﴾
تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہے کہ تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو،اور اللہ تعالٰی پر ایمان رکھتے ہو۔
(سورہ آل عمران:110)
آپ غور کریں کہ رب العزت کی ساری مخلوقات کتنے کام سر انجام دے رہی ہیں۔ فرشتے الله کے حکم سے اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ اسی طرح سورج، چاند، ستارے سب الله کے حکم سے کائنات میں روشنی پھیلانے کا کام کر رہے ہیں۔ لیکن یہ ساری روشنیاں انسان کی مادی زندگی سے تعلق رکھتی ہیں۔ اور جیسے اقبال نے کہا:
"ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا کا سفر کر نہ سکا-
وہ جس نے سورج کی شعاؤں کو گرفتار کیا
زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکا-”
یعنی آج کا انسان ستاروں کے راستے تلاش کرتا ہے سورج کی شعاؤں پر کام کر رہا ہے یقیناً یہ نفع مندی کے کام ہیں لیکن اس سے بھی نفع مند اور عظیم کام لوگوں کو رب کی معرفت کرانا، انہیں رب کی طرف بلانا اور جنت کے راستے پہ چلانا ہے اور یہ ہی زندگی کی شبِ تاریک کو سحر کرنے کا کام ہے جو آج نہیں ہو پا رہا۔ آج ہم بے چینی اور انتشار کا شکار ہیں۔ آج ہم دن رات مادی ضروریات کے حصول کے لئے کوشاں ہیں۔ اور اس مادی جدوجہد میں جنت کا راستہ ہم سے کہیں کھو گیا ہے۔ آج ہمیں ہماری ذات کا پتہ نہیں چلتا ہمیں اپنے رب کا کھوج نہیں ملتا جس نے ہمیں پیدا کیا، آج ہم نے جنت کے راستے کو چھوڑ دیا ہے:
"آئے تھے کیا کرنے اور کیا کر چلے؟”
انسان ہمیشہ یہ ہی سوچتا ہے کہ اپنی ذات اور روزی کے حصول کے لئے جو کام کئے جائیں وہ ہی اصل کام ہیں۔ اسطرح اسکے مادی وجود کے لئے روزی کا اہتمام ہوجاتا ہے۔ زندگی آگے بڑھتی چلی جاتی ہے اسے جینے کے لئے سب کچھ حاصل ہو جاتا ہے پھر اسے سمجھ نہیں آتی کہ اب تمام قوتیں مل گئیں جینے کے لئے سب کچھ حاصل ہو گیا اب کیا کروں؟
اب ذہنی دباؤ کیوں؟
کیونکہ وہ سب سے افضل کام نہیں کرتا وہ سب سے عظیم کام جو حقیقی نفع مندی کا راستہ ہے وہ کام "دعوت الی الله” ہے۔ داعی الی الله (الله کی طرف بلانے والا) کائنات کا خوش نصیب ترین انسان ہے کیونکہ وہ منارۂ نور (روشنی کا مینار) ہوتاہے وہ خود روشن ہوتا ہے اور اسکی روشنی دوسروں تک پہنچتی ہے۔ وہ لوگوں کو رب سے جوڑتا ہے انہیں جنت کے راستے کیطرف بلاتا ہے۔ داعی الی الله جہاں کہیں بھی ہوتا ہے اسکے توسط سے ایمان کی روشنی ارد گرد پھیلتی ہے۔
اگر آج دیکھیں تو ہر طرف دشمنان اسلام غالب ہیں۔ مسلمانوں پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔ اسکی ایک اہم وجہ مسلمانوں کا دعوت الی الله کا کام نہ کرنا ہے۔
تو اپنا مقصدِ حیات پہچانئیے اور منارۂ نور بن جائیے لوگوں کو رب سے جوڑ دیں دعوت الی الله ایک مومن کی ذمہ داری ہے۔دعوت شہد ہے یہ پہلے داعی کے اندر تیار ہوتا ہے۔ پھر لوگوں کو فائدہ پہنچتا ہے جب داعی دعوت دیتا ہے تب اس میں لوگوں کے لئے شفا ہے۔ یہ بشیر و نذیر کا کردار ہے دوسروں پر واضح کرنا کہ الله تعالیٰ نیکیوں پر کیا اجر دینے والا ہے اور گناہوں پر کیسی پکڑ کرنے والا ہے۔
الله سے دعا ہے کہ ہمیں بہترین منارۂ نور بنائیں اور ہم یہ نورپھیلانے کا کام تاحیات جاری رکھ سکیں۔ آمین
@Nusrat_186

Shares: