شادی سے دودن پہلے دُولہے کے دوست دُولہا کے ہمراہ محلے کے ہر گھر سے جا کر ایک ایک منجا اکٹھا کرتے۔ منجے کے پاوے پر اس گھر کے سربراہ کا نام لکھا جاتا۔ منجے کی صحت سے گھر کی معاشی حالت کا اندازہ ہوجاتا۔ کچھ بہتر حالات والے گھر سے منجے کے ساتھ ایک عدد سرہانہ یا چادر بھی مانگ لی جاتی ۔ ملک صاحب کے گھر سے سرخ پایوں والا منجا اور نئے سرہانے ملتے۔

منجے شادی والے گھر کے مردان خانے کی چار دیواری کے اندر یا پھر کُھلے میں ایک ترتیب سے لگا دئے جاتے جہاں اگلے دودن شادی کی تقریبات جیسے سہرا بندی اور بارات کی روانگی وغیرہ کے لئے لوگ ان پر بیٹھتے۔ دور سے آئے ہوئے مہمان دو چار دن پہلے ہی چکے ہوتے اور وہ ان منجوں پر دن رات بیٹھک جماتے۔ کبھی کبھی کسی منجی کا شیرو ، بانہہ یا پاوا مہمانوں کے بوجھ ٹوٹ جاتا۔ ایک کڑاک کی آواز آتی اور مہمان چاروں شانےچِت۔اس زخمی منجی کو ایک طرف کھڑا کر دیا جاتا تاکہ شادی کا رولا ختم ہونے کے بعد اسے ٹھیک کروا کر مالک کے گھر بھیج دیا جائے۔ اکثر لوگ اپنی زخمی منجی اٹھا کر کے جاتے اور مرمت کروا لیتے۔

یہ نہیں کہ اکٹھے کئے گئے سارے منجے مرد ہی استعمال کرتے، کوئی پانچ دس منجیاں زنان خانے میں بھی بجھوا دی جاتیں جن پر مہمان خواتین شادی والے دنوں میں اپنے چھوٹے بچے سلاتیں۔ ہ منجیاں ان کی ڈائننگ ٹیبل، صوفہ اور بچوں کا باتھ روم ہوتیں۔ صاف منجی دیتے ہوئے گھر والے کہتے “پتر اس نوں زنانے میں نہ دینا”

موسم کی مناسبت سے ان منجوں کو لوگ سائے یا دھوپ میں خود ہی گھسیٹ لیتے اور وقت کی مناسبت سے ان پر لمے ہو جاتے یا بیٹھ جاتے۔فنکشن کے وقت ایک ایک منجے پر چھ سے دس دس لوگ بیٹھ جاتے۔

وقت بدلا ، ٹینٹ سروس آئی، منجوں کی جگہ اسٹیل کی کرسیاں آئیں، پھر دریاں اور قالین بچھائے جانے لگے اور اب حالت یہ ہے کہ میرے چھوٹے سے قصبے کُندیاں میں دلہا دلہن تیار ہو کر پارلر سے سیدھے مارکی آتے ہیں۔ شادیوں میں منجوں پر بیٹھ کر لگنے والے مارکے (اکٹھ)ختم ہو چکے۔ تین گھنٹے میں ٹِک ٹاک شادی ختم۔

Shares: