سفر کی تھکان سے منزل کی دہلیز تک بقلم:جویریہ بتول

منزل کی دہلیز تک…!!!
[بقلم:جویریہ بتول]۔
اس سفر کی تھکان سے…
ڈوبتی سی مسکان سے…
کبھی تم جو ہار جاؤ…
یہ نہ ہو سکے کہ تم مسکراؤ…
قدم بھی یہ تھکے تھکے ہوں…
لہجے بھی پھٹے پھٹے ہوں…
زخموں پر چھید آ کر…
بیٹھے ہوں ہمیں رُلا کر…
ذہن کے بے صدا دریچے…
سکوت ہوں گہرا خریدے…
دل میں شور ہو انتقام کا…
طوفان ہو ہر سو ابہام کا…
شکوک کی سب زرد شاخیں…
جو بنی ہوں سانسوں پر گہری شامیں…
کانٹے ہر سو بدگمانیوں کے…
خود رو بوٹیوں پر بڑھے ہوں…
غلط فہمی کی راہوں پر…
اپنے بھی گر کئی چلے ہوں…
تو اندازِ حسن و جمال ہو…
یہ ضبط بھی اپنا کمال ہو…
زیرِ لب بس اک دعا رہے…
ہونٹوں پر حسنِ ادا رہے…
سجدہ کی حالت میں یہ جبین…
کچھ اشک بہائے ایسے ثمین…
انما اشکو بثی و حزنی الی اللہ…
اسی کی مدد ہو،اسی کو صدا…
یعقوب کے لبوں سے جملہ جب ہے نکلتا…
عشروں کا کھویا یوسف پھر کیسے ہے ملتا؟
دل کی بے قراری کو چین ہے آنے لگتا…
دھیرے دھیرے قدم بھی طاقت ہے پانے لگتا…
دل کی دنیا بھی ہے کھلکھلانے لگتی…
پھیکے لبوں پہ ہے پھر مسکان آنے لگتی…
آزمائش کے دریا میں ہم سدا…
اُبھریں بن کر ماہر تیراک…
شکوؤں سے دامن اپنا بچا رہے…
دعاؤں سے دل یہ بھرا رہے…
لبوں پہ مچلتی فریادیں رہیں…
منزلوں کو جو دیتی صدائیں رہیں…
انہی آداب کے مسافر کا پھر…
رہتا کامیاب ہر سفر ہے…!!!
اے اہلِ دل ذرا غور کرو…
کسے نشیب و فراز سے مفر ہے…؟
==============================
[جویریات ادبیات]۔
¤¤¤

Comments are closed.