مقام نسواں- شمع محفل یا چراغِ خانہ تحریر: سید غازی علی زیدی

0
85


شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشت خاک اس کی
کہ ہر شرف ہے اسی درج کا در مکنوں

عورت ہمیشہ سے مظلوم، تحقیر و تذلیل کا شکار، نہ کوئی عزت نہ کوئی مقام۔ یہود و نصاری ہوں یا رومی و شامی، مصری ہوں یا ہندی، عرب کے صحرا سے یورپ کے درباروں تک ہر جگہ عورت کی حیثیت ایک لونڈی سے زیادہ نہ تھی۔ کبھی جانوروں کے مول اس سے زیادہ لگتے تو کبھی اچھوت سمجھی جاتی، کبھی شیطانی روح کہلاتی تو کبھی ستی کردی جاتی۔ غرض آمد اسلام سے پہلے عورت کے سرے سے جینے پر ہی قدغن تھی۔ کہیں پیدائش کیساتھ ہی زندہ رہنے کا حق چھین لیا جاتا تو کہیں شمع محفل بنا کر مردوں کی نشاطِ طبع کا سامان کیا جاتا، کہیں مال وراثت کی صورت بٹتی تو کہیں سربازار لٹتی، کہیں گروی رکھوا کر پامال کی جاتی تو کہیں جوے میں ہار دی جاتی، غرض دنیا کی سب سے حقیر ترین شے عورت تھی۔

مرد کا راج
سر کا تاج
سہما وجود
رسموں کی قیود
ظلم و ستم مقدر
جیون فقط صبر
کچلی ہوئی ذات
ہر حال میں مات
لیکن پھر رحمت للعالمین ﷺ کی آمد نے سسکتی، بلکتی عورت کی زندگی کو منور کر دیا۔ وہ کرلاتی مخلوق جو سانس بھی اپنی مرضی سے نہیں لے سکتی تھی اس کو وہ وقار و سربلندی بخشی جو اس کا جائز حق تھا۔ پیروں کی جوتی سمجھی جانے والی کے پاؤں تلے جنت رکھ دی۔ بیٹی کو نحوست کی جگہ رحمت بنا دیا، ذلت سمجھنے والوں کیلئے بہن باعث تکریم بنا دی گئی اور آدھا ایمان ہی بیوی سے مکمل کروادیا گیا۔شمع محفل کو گھر کی زینت بنا کرعورت کے ہر رشتے کو افتخار بخشا گیا۔ قرآن پاک کی پوری ایک سورت کا نام النساء رکھ کر تاقیامت خواتین کے مرتبے کا تعین کر دیا گیا۔ وراثت سے لیکر معاشرت تک کے تمام حقوق و فرائض متعین کردیے گئے۔ اور زمانہ جاہلیت کی تمام ظالمانہ رسوم و رواج کا مکمل خاتمہ کر کے اسے عظمت کا نمونہ بنادیا گیا۔
اسلام نے فرعون کی بیوی کا درجہ جنت کی سردار کا کر دیا۔ حضرت مریم ؑ کی پاکدامنی پر پوری سورت اتاری گئی۔ قرآن مجید میں حضرت زینب ؓ کے خلع کے حق کو تسلیم کرکے نبی ﷺ سے نکاح کا شرف بخشا گیا، حضرت عائشہ ؓ کی برأت کیلئے آیات کا نزول ہوا اور تاقیامت عورت کی عصمت و عفت پربہتان طرازی کرنے والوں کیلئے قانون بنا دیا گیا۔ مرد کو عورت کا ولی مقرر کر کے عورت کو ہر طرح کی معاشی زمہ داری سے بری الذمہ قرار دے دیا۔
یہ اسلام ہی تھا جس نے عورت کو ایک کمتر مخلوق کے درجے سے نکال کر بطور انسان مردکے برابر رتبہ دیا۔
لیکن صد افسوس کہ آج کا ترقی پسند مرد خواہ مشرقی ہو یا مغرب کا پروردہ، جو خود کو تہذیب یافتہ و انسانی حقوق کا علمبردار سمجھتا، خواتین کو ان کا جائز حق دینے سے خائف ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کہیں عورت تیزاب گردی کا شکار ہے تو کہیں بدترین گھریلو تشدد کا، ماڈرن ازم کے باوجود آج بھی بیٹی کی پیدائش پر ناگواری ظاہر کی جاتی اور بیوی کو پیر کی جوتی سمجھا جاتا۔ پوری دنیا میں خطرناک حد تک بڑھتے عصمت فروشی، آبرو ریزی، جنسی ہراسگی اور صنفی امتیازی سلوک کے واقعات اس بات کی نشاندھی کرتے ہیں کہ جدیدیت کے نام پر عورت کا استحصال کیا جارہا۔ ستم ظریفی یہ کہ اکثر خواتین کے حقوق کے چمپئن ہی ان گھناؤنے جرائم میں ملوث ہوتے۔ چوراہوں پر عورت مارچ کے بینر اٹھائے یہ مرد حضرات گھر کی چار دیواری میں بیوی کو معمولی بات پر دھنک کر رکھ دیتے۔ بڑی بڑی این جی اوز عورت کے حقوق کی بحالی کیلئے فنڈز تو حاصل کرلیتی ہیں لیکن اپنی خواتین ورکرز کو جائز تنخواہیں تک نہیں دیتی۔ تیزاب گردی پر فلم بنا کر آسکر ایوارڈ لینے والی خاتون نے خود سب سے زیادہ متاثرہ عورت کا استحصال کیا۔ لیکن اگر کوئی ان امور پر آواز اٹھائے تو اس پر بنیاد پرستی اور پدرسری کا الزام لگادیا جاتا۔
آزادی نسواں اور فیمینزم کا راگ الاپتے یہ لوگ صرف مغربی تعصب کی تقلید میں اسلام کو عورت کی ترقی کا دشمن سمجھتے۔ ان کا ہر ہر نعرہ اسلام کیخلاف ہوتا۔ حالانکہ اگر یہ صحیح معنوں میں اسلام سے واقف ہوتے تو جان لیتے کہ اسلام خواتین کے حقوق کا سب سے بڑا داعی ہے۔ پردے کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ قرار دینے والے نہیں جانتے کہ پردہ عورت کی عزت کا محافظ اور وقار کا باعث ہے۔ اسلامی تعلیمات کیخلاف دشنام طرازی کرتے یہ لوگ بھول جاتے کہ ترویج اسلام میں خواتین کا نمایاں کردار رہا ہے۔
حضرت خدیجہ ؓکی اخلاقی و مالی مدد نے اسلام کوابتدائی مشکل ترین دنوں میں سہارا دیا۔ ان کا درجہ اتنا بلند کہ خود باری تعالیٰ نے حضرت جبرائیل کے زریعے سلام کہلوایا۔ غزوات میں مسلم خواتین کی خدمات کسی سے پوشیدہ نہیں۔ تلوار بازی سے مرہم پٹی تک ہر مرحلے میں مردوں کے قدم بقدم رہیں۔ حق گوئی و بیباکی، جرآت و شجاعت، ذہانت و فراست ازدواج مطہرات و صحابیات کی نمایاں ترین خصوصیات تھیں۔ ایک بیٹی کو اللّٰہ نے وہ مرتبہ دیا کہ نبی پاک ﷺ کی تاقیامت مبارک ترین نسل حضرت فاطمتہ الزہرا ؓ کی بابرکت آغوش کی بدولت ہے۔ یزید کے دربار میں حضرت زینب ؓ کی للکار جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق کی بہترین مثال ہے۔ سائنس، طب، فقہ، ادب، تاریخ، اقتصادیات غرض کونسا ایسا شعبہ زندگی ہے جس میں ہمیں ماہر ترین مسلم خواتین نہیں ملتی ہیں۔ ہم مسلمانوں کی ستم ظریفی کہ ہم نے اعلیٰ ترین اخلاقی اقدار کی حامل مسلم خواتین کو چھوڑ کر دو ٹکے کی اخلاق باختہ ماڈلز کو آئیڈیل بنا لیا ہے۔ ہندوؤں سے متاثرہ ہمارے معاشرے میں عورتوں کو کم عقل اور صرف گھریلو کام کاج تک محدود سمجھا جانے لگا۔ نتیجتاً ہمارے اسلاف کے شاندار کارنامے سیرت کی کتابوں تک محدود ہو گئے۔ مزید برآں جو پردہ عورت کی عصمت کا محافظ تھا اسے عورت کی ترقی کا سب سے بڑا دشمن بنا کر پیش کیا گیا۔ پروپیگنڈہ کی ایسی ہوا چلی کہ اچھے خاصے سمجھدار لوگ اس کے دام میں آ گئے۔ یہاں تک کہ اسلام کی اصل روح اور تعلیمات سے واقف اور اس پر عمل کرنے والے آٹے میں نمک کے برابر رہ گئے ہیں۔
ابھی بھی وقت ہے خدارا سنبھل جائیں۔ خدا سے بڑا نہ کوئی خیرخواہ ہوسکتا نہ معلم۔ شیطان انسان کا ازلی دشمن ہونے کے ناطے ہمیشہ گمراہی کے گھنگور اندھیروں کیطرف ہی لے جائے گا جس کا انجام دنیا میں بھی رسوائی ہے اور آخرت میں بھی۔ شیطان کے چیلے مسحور کن نعروں اور رنگین نظاروں کی مدد سے سبز باغ دکھا کر بے حیائی کی راہ پر گامزن کررہے اور ہماری خواتین بلا سوچ سمجھ کے اپنی جنت چھوڑ کر بازار کی زینت بن رہی ہیں۔ جائز مطالبات اور حرام کاری کے فروغ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ خدارا ان دونوں کو آپس میں نہ ملائیں ورنہ عورت کی مظلومیت کی داستانیں تو ختم نہ ہوں گی لیکن بے حیائی و فحاشی میں ضرور اضافہ ہوگا جس کا انجام بلآخر معاشرے کی بربادی ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کا ارشاد پاک ہم سب کیلئے مشعل راہ بھی ہے اور تنبیہ بھی؛
”تم میں کامل ترین مومن وہ ہے جو اخلاق میں سب سے زیادہ اچھا ہے ، اور تم میں سب سے بہتر ہے وہ ہے جو اپنی عورتوں کے حق میں سب سے بہتر ہے ۔”
کیا اس کے بعد بھی کوئی کہہ سکتا کہ اسلام خواتین کے حقوق کا سب سے بڑا محافظ نہیں ہے؟
‎@once_says

Leave a reply