مقبوضہ بیت المقدس کی فریاد کس کے لئے ؟ از قلم غنی محمود قصوری

0
51

اس کرہ ارض کی کل آبادی 7.5 ارب ہے جن میں عیسائیوں کی تعداد 2.2 ارب مسلمانوں کی تعداد 1.8 ارب ہندوؤں کی تعداد 1 ارب سے کچھ زائد اور یہودیوں کی تعداد 1.4 کروڑ ہے
اس لحاظ سے اسلام دنیا کا دوسرا بڑا مذہب ہے مگر افسوس کہ دنیا کا کوئی بھی کونا کشمیر ہو یا افغانستان شام ہو یا عراق فلسطین ہو یا برما ہر جگہ مسلمانوں پر ہی ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں

چند دنوں سے ظالم غاصب یہودی نے ظلمت کی حدیں پار کرکے گزشتہ دنوں مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس میں نماز تراویح ادا کرتے مسلمانوں پر شدید فائرنگ کی جس کے نتیجے میںں200 کے قریب مسلمان شدید زخمی ہوئے اسی طرح کشمیر میں ہندو کا ظلم بھی جاری ہے جو کہ دن بدن بڑھتا ہی جا رہا ہے

مسلمانوں کی تاریخ کو دیکھا جائے تو فتوحات کا بہت بڑا سلسلہ ہمارے اسلاف نے انجام دیا جس کی عظیم ترین مثال دور نبوی میں پہلا معرکہ بدر کی ہے
یہ معرکہ اسی بابرکت ماہ رمضان کی 17 تاریخ کو ہوا تھا جس میں مسلمانوں کی تعداد 313 اور کافروں کی تعداد 1000 تھی مسلمانوں کے پاس انتہائی کم وسائل سامان حرب و ضرب نا ہونے کے برابر تھا جبکہ مسلمانوں نے چل کر 155 کلومیٹر دور جانا تھا اور اوپر سے روزہ بھی جبکہ اونٹ 70 اور 2 گھوڑے میسر تھے

مگر چشم فلک نے وہ نظارہ دیکھا کہ 1 ہزار میں سے 70 کافر قتل کر دیئے گئے 70 قیدی بنا لئے گئے اور باقی کتے کی طرح دم دبا کر بھاگ نکلے
مگر اس کے برعکس آج معاملہ الٹ ہے جس کی وضاحت اس حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں کی گئی ہے

رسول اللہ ﷺنے فرمایا،قریب ہے کہ (گمراہ) قومیں تمہارے خلاف اس طرح یلغار کریں گی جس طرح کھانے والے کھانے کھانے پہ ٹوٹ پڑتے ہیں
کسی نے عرض کیا اس روز ہماری تعداد کم ہونے کی وجہ سے ایسا ہوگا؟
آپ ﷺنے فرمایا نہیں بلکہ اس روز تم زیادہ ہو گے لیکن تم سیلاب کی جھاگ کی طرح ہو گے اللہ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہاری ہیبت نکال دے گا اور تمہارے دل میں وہن ڈال دے گا

کسی نے عرض کیا، اللہ کے رسول وہن کیا ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا دنیا سے محبت اور موت سے نفرت۔۔ أبو داود 2297

اس حدیث سے آج مسلمانوں کی پستی کا پتہ چلتا ہے کہ ہمیں دنیاوی زندگی سے پیار ہے اور جہاد و قتال سے عدم دلچسپی جس کے باعث کافر قومیں ہم پر بھوکوں کی طرح ٹوٹ رہی ہیں
حتیٰ کہ مملکت اسلامیہ کے سربراہان نے جہادی تنظیموں پر پابندیاں لگا کر انہیں پابند سلاسل کیا ہوا ہے جس کے باعث کافروں کو مذید شہہ ملی

حالانکہ اسلام دنیا کا دوسرا بڑا مذہب ہے اور ہم عیسائیوں کے علاوہ باقی سب سے زیادہ ہیں اور یہودی ناپاک تو ہمارے کسی کھاتے میں نہیں مگر یہودی نے قتال نا چھوڑا جبکہ ہم نے چھوڑ دیا یہی وجہ ہے کہ ایک چھوٹی سی ناجائز ریاست پوری دنیا پر حاوی ہو چکی ہے
قرآن نے ہمیں غمی خوشی جینے مرنے کا سلیقہ سکھایا ہے مسلمانوں کے مقدس مقامات تو دور کی بات عام مسلمان کی پکار بھی ہو تو ہمارے لئے جہاد فرض ہو جاتا ہے جس کی وضاحت سورہ النساء کی اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالی نے کی ہے

وَ مَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآءِ وَ الْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اَخْرِجْنَا مِنْ هٰذِهِ الْقَرْیَةِ الظَّالِمِ اَهْلُهَاۚ-وَ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ وَلِیًّا ﳐ وَّ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ نَصِیْرًاؕ (۷۵)

ترجمہ۔۔۔اور تمہیں کیا ہوگیا کہ تم اللہ کے راستے میں نہ لڑو اور کمزور مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر (نہ لڑو جو) یہ دعا کر رہے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں اس شہرسے نکال دے جس کے باشندے ظالم ہیں اور ہمارے لئے اپنے پاس سے کوئی حمایتی بنا دے اور ہمارے لئے اپنی بارگاہ سے کوئی مددگار بنا دے

آج فلسطین،شام،افغانستان،عراق،برما و کشمیر کے علاوہ پوری دنیا کے لوگ ہم کو پکار رہے ہیں کہ ہماری مدد کرو اور روز ہم تک یہ آوازیں پہنچ رہی ہیں حالانکہ یہ قرآن ہر مسلمان ہر حکمران ہر ملک کے باشندے کیلئے اترا ہے
جس طرح فلسطینیوں کی مدد پاکستانیوں پر فرض ہے ایسے ہی عربوں و دیگر مسلم ممالک و سربراہانِ مسلم مملکت پر فرض ہے جبکہ ماضی گواہ ہے کہ پاکستان نے اپنی بساط سے بڑھ کر اسرائیل کو عرب اسرائیل جنگوں میں جواب دیا جسے آج بھی یاد کرکے یہودی پاکستان کے خلاف زہر اگلتا ہے

یہ پکار بیت المقدس ہم سب کیلئے ہے ہمیں یک جان ہونا ہوگا اور ان کافروں کا مقابلہ کرنا ہوگا ورنہ وہ دن دور نہیں کہ ہم بھی اپنی آزادی خدانخواستہ کھو کر ان کافروں کی غلامی میں چلے جائیں بطور مسلمان سربراہان مملکت اسلامیہ 57 اسلامی ممالک پر فرض ہو چکا ہے کہ پکار بیت المقدس پر لبیک کہتے ہوئے اسرائیلی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے اور عام عوام پر فرض ہے کہ یہودی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کرکے اسے مالی نقصان پہنچایا جائے

کیونکہ 1948 سے قبل یہود اتنے طاقتور نا تھے انہوں نے اپنے بڑوں کی رسم کو اعلیٰ جانا اور تجارت شروع کی اور آج دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا پر ان کی پراڈکٹس کا راج ہے جبکہ ہر یہودی ہوش سنبھالتے ہی مسلح عسکری تربیت حاصل کرتا ہے جبکہ اسلامی ممالک میں عسکری تربیت کو ایک بہت بڑا جرم سمجھا جاتا ہے

تو پکار بیت المقدس پر آگے بڑھیں اور جواب دیں بیت المقدس کی پکار کا کہ ہم ایوبی کے بیٹے آ رہے ہیں ان شاءاللہ

Leave a reply