دنیا میں عشق کی ایک سے بڑھ کر ایک مثالیں گزری ہیں۔ میرا قلم اتنا قابل نہیں کی فضائل حضرت عمرؓ پر لکھ سکے۔ کیونکہ یہ وہ صحابہ کرام اور ان سے منسلک ہر چیز اللہ رب العزت کی جانب سے منتخب کی گئی۔ قرآن بھی جگہ جگہ اس کی گواہی دیتا ہے۔ ہر اک چیز کو چنا گیا ہے۔اسی طرح اللہ کریم نے امت میں سے جسے چاہا دین کا نور عطا کیا اور صحابہ کرام کے درجے پر فائز فرمایا۔ اعلان نبوت کے ابتدائی دور میں تو چھپ چھپ کر عبادت کا سلسلہ جاری رہا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین چھپ کر تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھے ہوے تھے۔ پھر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا جزبہ دیکھتے ہوئے اللہ کے حبیب حضور خاتم النبیین محمد صلی الله عليه وآلہ وسلم نے اللہ رب العزت کے سامنے ہاتھ اٹھائے اور التجا کی کہ میرے رب دین کو مکہ کے دو بہادر ہستیوں میں سے ایک سے تقویت عطا کر۔ اللہ رب العزت کے اسلام کے لیے خاندان شجاعت کے پھول اور نسل _ خطاب سے حضرت عمرؓ کو دین کی دولت سے نواز دیا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شجاعت کے چرچے پورے عرب میں تھے۔ مائیں اپنے بچوں کو خوف دلاتی کہ سو جاؤ عمر آ جاے گا۔ جب یہ تحفہ اسلام کو ملا تو آپ رضی الله تعالیٰ عنہ مراد رسول ﷺ کہلاے کیوں کہ آپ کو باضابطہ طور پر اسلام کی شجاعت و مرتبت کے لیے منتخب کیا گیا۔ آپ رضی الله تعالیٰ عنہ کے اسلام قبول کرتے ہی پہلا اعلان جو فرمایا کہ ۔ مسلمان اب کھلے عام اللہ کی عبادت کریں گے کون ہے جو اپنی اولاد کو یتیم کرانا چاہے گا بیوی کو بیوہ کرانا. چاہے گا جسے اسلام سے مقابلہ کرنا ہے پہلے مجھ عمرؓ سے مقابلہ کرے۔ اس اعلان سے مسلمانوں کے جزبے کو توقیت ملی۔
پھر حضور نبی کریم خاتم النبیین محمد صلی الله عليه و آلہ وسلم سے جو مرتبوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ بہت مشہور ہے۔
1۔ مراد رسولؐ کہلاے۔
2۔ آپﷺ نے فرمایا میں آخری نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں اگر کوئی ہوتا تو عمرؓ ہوتا۔
3۔ عشرہ مبشرہ کا شرف حاصل کیا۔
4۔ بیت المقدس کی فتح کا سہرا بھی آپ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے سر ہے۔
5۔ نظام عدل کی ایسی مثال قائم کی جس کی مثال رہتی دنیا تک قائم رہے گی۔
6۔ کفر کے لیے عزاب اور امت کے لیے نہایت شفیق۔
موضوع بہت طویل ہے لیکن آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان میں صرف ایک واقع عرض کرنے کا شرف حاصل کروں گا جس سے بہت سے اسباق ملتے ہیں۔
ریاست عمرؓ میں ایک بار اک گلی سے گزر ہوا تو بچوں کے رونے کی آواز سنائی دی۔ آپ رضی تعالیٰ عنہ دن کو انصاف کی کچہری اور ریاستی معاملات تو رات کی تاریکی میں گلیوں کے چکر لگاتے کی ریاست میں کوئی ضرورت مند نہ رہے کسی کی سفید پوشی ایسی نہ ہو جسے تواضع نا کیا جا سکے۔ 22 لاکھ مربع میل ریاست کا سلطان بھیس بدل کر رعایا کی حالت دیکھنے راتوں کو گلیوں میں گھوما کرتا تھا.
*مراد رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہو انتخاب رب العالمین ہو انداز جدا کیسے نا ہو.*
اک گلی سے گزر ہوا بچوں کے رونے کی آواز سنائی دی دروازے پر دستک دی تو اندر سے خاتون کی آواز سنائی دی سوال کیا بچے کیوں رو رہے جوا آیا گھر پر کھانے کو کچھ نہیں بھوک سے رو رہے ہیں۔ اور میں عمرؓ کی جان کو رو رہی ہوں۔ حضرت عمرؓ کا جسم لرز گیا۔ فورا بیت المال گے اناج اپنے کندھے پر لاد کر لاے خادم نے اٹھانا چاہا تو جواب دیا اگر قیامت میں میرا بوجھ اٹھا لو گے تو اب بھی اٹھا لو۔ ریاست کا سربراہ ایسا ہوتا ہے۔ فرمایا کرتے تھے دریا _فرات کے کنارے کوئی کتا بھی پیاسا مر گیا تو جواب عمرؓ کو دینا پڑے گا۔ خیر دروازہ کھلوایا۔ بچوں کی بھوک سے حالت دیکھ کر تلملا اٹھے۔ عورت کو کھانا بنانے کا کہا اور خود بچوں کو پیٹھ پر بٹھا کر کھلانے لگے. کھانا تیار ہوا بچوں کو کھلایا۔ ماں کا دل چوٹ کھا گیا کہنے لگی کتنے شفیق انسان ہو تم اور اک عمرؓ ہے لیرے بچوں کا خیال کیوں نہ آیا اسے. اسے تو قیامت والے دن نہیں چھوڑوں گی۔ حضرت عمرؓ کا دل اور پگھل گیا۔ کہنے لگے عمرؓ کو معاف کر دو سارا دن ریاست کی کچہریوں میں گزارتا ہو گا. آخر انسان ہے تھک بھی جاتا ہو گا۔ رب العالمین کے ساتھ شرف عبادت بھی حاصل کرتا ہو گا. عورت کہنے لگی کہاں تم اتنے خدا ترس اور کہاں عمرؓ تم اس کی وکالت کیوں کرتے ہو قیامت کا دن ہو گا میرا ہاتھ اور عمرؓ کا گریبان رب کی عدالت میں پکڑوں گی۔ حضرت عمرؓ کو بچوں کی طرح بلک کر رونے لگے فرمایا وہ بد نصیب عمرؓ تمہارے سامنے کھڑا ہے. جو کہنا ہے آج کہ لو آج عمرؓ حساب دے لے گا۔ کل قیامت میں مجھے بخش دینا. 22 لاکھ مربع میل کی سلطنت کا سلطان جس سے کفر لرز اٹھے اور رب کریم کی مخلوق پر اتنے رحم دل بے شک اللہ تعالیٰ کے چنے ہوئے لوگ ہیں.
قلم کی زبان کو لگام دینا مجبوری ہے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فضائل بے شمار اور اس تحریر کے الفاظ محدود ہیں. آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو زہر آلود خنجر کے وار سے شہید کیا گیا. ان کے بنائے گئے اصول حکمرانی سے دنیا میں انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے. آج اکہی کی تعلیمات کے کچھ اصولوں کو *umar law* کو دنیا کی ترقی یافتہ ریاستوں نے اپنا رکھا ہے. پاکستان میں نظم عدل، سزا و جزا، غریب کی داد رسی کا شدید فقدان ہے. اللہ کریم صاحب اختیار لوگوں کو کمزوروں کا احساس کرنے کی توفیق عطا فرمائے. تاکہ معاشرے کے توازن کو بہتر بنایا جائے اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق *Umer Law* کو نافذ کر کے نظام عدل کو بہترین کیا جا سکے.
@EngrMuddsairH