ہفتہ اوراتوار مارکیٹیں کھولنے کا حکم ، چیف جسٹس نے اپنے فیصلے کی وضاحت کردی

0
30

ہفتہ اوراتوار مارکیٹیں کھولنے کا حکم ، چیف جسٹس نے اپنے فیصلے کی وضاحت کردی

اسلام آباد (باغی ٹی وی ) سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے کی دوٹوک الفاظ میں وضاحت کرتے ہوئے کہا ہفتہ اور اتوار کو شاپنگ سینٹرز کھولنے کا حکم عید کے تناظر میں ہے، چیف جسٹس نے کہا عید کے بعد صورتحال کا جائزہ لیں گے،ملک میں کورونا ہے، احتیاط نہ کی گئی تو کورونا شدت سے پھیل سکتا ہے۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 5رکنی لارجربینچ نے کورونااز خود نوٹس کیس کی سماعت کی، اٹارنی جنرل عدالت میں پیش
ہوئے اور بتایا چیئرمین این ڈی ایم اےعدالت میں حاضرہیں۔
چیف جسٹس نے کہا ہمارامسئلہ اخراجات کانہیں ہے،ہم لوگوں کوبہترسروس دلاناچاہتےہیں، لوگوں کیلئےہیومن ریسورس متعین ہیں وہ بہترکام نہیں کررہیں، جب مریض ان کےپاس پہنچتا ہے وہ پھنس جاتاہے، سرکاری لیبارٹریزمیں ٹیسٹ مثبت آئےاورنجی کلینک سےوہ منفی آگیا، سپریم کورٹ لاہوررجسٹری میں بھی ایساہی ہوا، نیشنل اسپتال لاہورسےایک آدمی کی ویڈیو دیکھی وہ رورہاہے۔
جسٹس گلزار نے ریمارکس میں کہا ڈاکٹراور طبی عملےکوسلام پیش کرتےہیں، اس عملےمیں جوخراب لوگ ہیں وہ تشویش کی وجہ ہیں، ہرچیزپیسہ نہیں ہوتی،پیسوں کیلئےکھیل نہ کھیلیں، پیسہ اہم نہیں ہےبلکہ انسان اہم ہیں، ملکی معیشت کاموازنہ افغانستان،صومالیہ،یمن سے کیا جاتا ہے، پاکستانی غریب سےغریب ترین قوم ہے، اس طرف کسی کودھیان نہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان کا کہنا تھا کہ لاہورایکسپوسینٹر،اسلام آبادقرنطینہ سےلوگوں کی ویڈیوزدیکھنےکومل رہی ہیں، لوگ غصےمیں کہہ رہے ہیں کہ باہرمرجاؤلیکن پاکستان نہ آؤ، 10، 10 لوگ قرنطینہ مراکزمیں ایک ساتھ بیٹھےہیں یہ کیساقرنطینہ ہے؟ ان قرنطینہ سینٹرزمیں کوئی صفائی کاخیال نہیں رکھا جارہا، کوروناکےمریض کودنیاجہان کی ادویات لگادی جاتی ہیں۔
جسٹس گلزار نے کہا کہ ایک شخص رورہاتھااسکی بیوی کوکورونانہیں لیکن ڈاکٹرچھوڑنہیں رہےتھے، قرنطینہ سینٹرز میں واش رومز صاف نہیں ہوتے،پانی نہیں ہوتا، سوشل میڈیا پر قرنطینہ سینٹرزکی حالت زارکی ویڈیوزچل رہی ہیں، مشتبہ مریض ویڈیوزمیں تارکین وطن کوکہہ رہےہیں پاکستان نہ آئیں، ہم پیسےسےکھیل رہےہیں لوگوں کااحساس نہیں۔
کوروناازخودنوٹس کیس میں سماعت کے دوران چیئرمین این ڈی ایم اےعدات میں پیش ہوئے، چیف جسٹس نے کہا ہمارے لوگوں کو جانوروں سے بدتر رکھا جارہا ہے، سرکارکےتمام وسائل کو لوگوں کے اوپر خرچ ہونا چاہیے، کسی مخصوص کلاس کیلئے سرکار کے وسائل استعمال نہیں ہونے چاہئیں، مخصوص کلاس تو صرف2فیصدہے، این ڈی ایم اےشہروں میں کام کر رہا ہے ، دیہاتوں تک توگیاہی نہیں، جتنےقرنطینہ سینٹرزقائم ہوئےوہ صرف شہروں میں ہوئے، دیہاتوں میں لوگ پیروں کےپاس جاکردم کرارہےہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ہماری تشویش اخراجات سےمتعلق نہیں ہے، ہماری تشویش سروسزکےمعیار پرہے، مشتبہ مریض کاسرکاری لیب سےٹیسٹ مثبت،نجی سے منفی آتا ہے، سپریم کورٹ کے لاہور رجسٹری ملازمین سے بھی ایساہی ہوا، ہمارےملازمین کاٹیسٹ سرکاری لیب سےمثبت،نجی سےمنفی آیا۔
جسٹس گلزار کا کہنا تھا کہ چین سےآنےوالےمال کی کوالٹی چیک نہیں ہوتی، ہم کم کوالٹی کامال مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں، دنیابارڈرزپردرآمدسامان کی کوالٹی چیک کرتی ہے یہاں ایسا نہیں، سب لوگ صرف پیسےسےکھیل رہےہیں کسی کوانسان کی فکرنہیں، پاکستان کےپاس خرچ کرنےکیلئےلامحدودرقم نہیں ہے۔
چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کہا کہ این ڈی ایم اےساراسامان چین سےمنگوارہاہے، چین میں ایک ہی پارٹی این ڈی ایم اےکوسامان بھجوارہی ، مقامی سطح پرسامان کی تیاری کیلئے ایک ہی مشین منگوائی گئی اور چیئرمین این ڈی ایم اےسے استفسار کیا یہ ڈیسٹوپاکستان آرمی کیاچیزہے؟ یہ مشین کسی پرائیویٹ آرمی پرسنل کی ہے یاپاکستان آرمی کی، جومشین باہر سے منگوارہےتھےوہ کسی پرائیویٹ آدمی کومنگوانےدیتے، آپ نےمشین کسی دوسرےآدمی کومنگوانےہی نہیں دی۔
چیئرمین این ڈی ایم اے نے بتایا کہ پرائیویٹ لوگ بھی مشینیں اورسامان منگوارہےہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ کوہرچیزاپنےملک میں بنانی چاہیے، باہرسےنہ کوئی آپ کو دے گا اور نہ آپ سے لے گا، کھانےپینےکی اشیا،ادویات اوردیگرسامان اپنےملک میں تیارکریں، کوئی آپ سےسامان خریدےگانہ آپ کسی سےخریدسکیں گے۔
چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کہا آپ یونیورسٹی گریجویٹس کواستعمال کریں، آپ اداروں کوچلا سکتےہیں نہ ہی مینج کرسکتےہیں، آپ نےسب کچھ سیاست زدہ کردیا، آپ نےاسٹیل ملزکوتباہ کر دیا، اسٹیل ملزمیں ٹینک اوردیگرسامان تیارہوتاتھا، بہت سی کمپنیوں کالیگل ایڈوائزررہاوہ غلط پالیسیوں کی وجہ سےبندہوگئیں، آپ پبلک یاپرائیویٹ سطح پرکام کریں لوگوں کونوکریاں ملنی چاہئیں۔
جسٹس گلزار کا کہنا تھا کہ آپ صومالیہ سے بھی نیچے چلے جائیں گے، آپ غربت کی لکیر سے نیچے جارہے ہیں، ملک کے وسائل عوام کےلیے ہیں، صرف 2فیصد کے لیےنہیں، باقی 98 فیصد عوام پر بھی وسائل خرچ کریں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ آپ نےکروڑوں روپےلگادیئےلیکن کچھ ہوتانظرنہیں آرہا،حاجی کیمپ پرپیسہ لگادیااب صرف حاجیوں کوکچھ فائدہ ہوجائےگا، ورنہ توحاجی بھی بدترین حالات میں وہاں گزاراکرتےتھے، جس پر چیئرمین این ڈی ایم اے نے بتایا کہ این ڈی ایم اےدیگراداروں کوبھی مددفراہم کررہاہے، ہمارےتعاون سے ملک میں 10لاکھ پی پی ایزبن رہی ہیں۔
جسٹس گلزار نے چیئرمین این ڈی ایم اےسےمکالمے میں کہا آپ رقم کےحساب کتاب کوچھوڑیں، ہرچیزچین سےمنگوائی جا رہی ہے،نپاکستان میں چین سے گھٹیا مال منگوایا جاتا ہے ، جو 10کالے کر 1000 کا بکتا ہے، امریکامیں کھلونے کا رنگ بھی چیک ہوتاہےکہ بچےکوالرجی تونہیں ہوگی، یہاں سب کچھ بارڈر سےبغیرچیکنگ آجاتاہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا تمام طبی آلات پاکستان میں ہی تیارہوسکتے ہیں ، وقت آرہا ہے ادویات سمیت کچھ بھی باہر سے نہیں ملےگا ،پاکستان کو ہر چیزمیں خودمختار ہونا ہوگا، اسٹیل مل چل پڑے تو جہازاورٹینک بھی یہاں بن سکتےہیں، تمام پی آئی ڈی سی فیکٹریاں اب بند ہوچکی ہیں، اسٹیل ملز کو سیاسی وجوہات پر چلنے نہیں دیا جاتا۔
ہمارےلوگوں کوجانوروں سےبدتررکھاجارہاہے، سرکار کےتمام وسائل کولوگوں کےاوپرخرچ ہوناچاہیے، حاجی کیمپ قرنطینہ سینٹرکےحالات آپ کےسامنےہیں، ایک دفعہ جوبندہ قرنطینہ پہنچ گیاوہ پیسےدیےبغیرباہرواپس نہیں آسکتا، چاہےوہ شخص نیگٹوہی کیوں نہ ہو۔
چیئرمین این ڈی ایم اے نے عدالت کو بتایا کہ 10 ملین پی پی ایزکٹ تیارہورہی ہیں، 1187 وینٹی لیٹرزکاآرڈردیاتھاجس میں سے300آچکےہیں، 20اپریل کےبعداب تک کوئی پی پی ایزکٹ نہیں منگوائی، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے امریکامیں ہرچیزکامعیاردیکھاجاتاہے، ہمارےیہاں جوسامان منگوایاجاتاہےاس میں معیار نہیں دیکھاجاتا، ہمیں معیاری سامان چاہیے۔
اٹارنی جنرل نے کہا عدالتی ریمارکس سےعوام سمجھ رہےہیں کورونا سنجیدہ مسئلہ نہیں، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا ٹی وی پر سنا ایک شخص کہہ رہا تھا صبح کے وقت طارق روڈ پر پارکنگ تھی، اس وقت تک ہم نے نہ کوئی آرڈر اورنہ کوئی ریمارکس دیے تھے۔
اٹارنی جنرل نے مزید کہا یہ نہیں کہہ رہا بازاروں میں رش چیف جسٹس کی وجہ سے لگ گیاہے، عوام سپریم کورٹ کے فیصلوں کو بہت سنجیدگی سےلیتےہیں،عدالت کےحکم کے باعث انتظامیہ کواقدامات میں مشکلات ہیں، استدعا ہےریمارکس اور فیصلے دیتے ہوئے معاملے کی سنجیدگی کو مدنظر رکھا جائے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ حکومت کورونا وائرس کے خلاف نبردآزما ہے، چیئرمین این ڈی ایم اےکی رپورٹ بڑی مفیدہے، پی پی ایز پاکستان میں تیار ہو رہے ہیں، وینٹی لیٹرزکی پیداوار بھی شروع ہوچکی ہے، 1187وینٹی لیٹرزحکومت بیرون ملک سے منگوانے کا آرڈر دے چکی ہے، 300وینٹی لیٹر آچکےہیں۔
جسٹس گلزار نے فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا شاپنگ سینٹر ہفتہ اوراتوار کو کھولنے کا حکم عید کے تناظر میں تھا، عید کے بعد صورتحال کا جائزہ لیں گے، احتیاط نہ کی گئی تو کورونا شدت سے پھیل سکتا ہے۔
چیف جسٹس سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ این ڈی ایم اےنےتسلی بخش رپورٹ دی ہے، لوگ اس سےبڑی تعدادمیں متاثرہورہےہیں، ہم جانتےہیں کوروناملک میں موجودہے، سرکاری دفاتر کھول کر نجی ادارے بند کررہے ہیں، سندھ حکومت کے فیصلوں میں بڑا تضاد ہے، جس پر اے جی سندھ نے کہا وفاقی حکومت طبی ماہرین کی رائےکے برخلاف جارہی ہے جبکہ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ عدالت کےہفتہ اتوارلاک ڈاؤن کے حکم سے ممکن ہےحکومت مطمئن نہ ، حکومت نے اس کے باوجود اس پرعمل کیا۔
جسٹس گلزار نے ریمارکس دیئے کہ ہماری پورے پاکستان پر نظر ہے، آنکھ، کان اورمنہ بند نہیں کرسکتے، ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا عدالت ہماری گزارشات بھی سن لے، عدالت ماہرین کی کمیٹی بنا کر رپورٹ طلب کرلے، لاک ڈاؤن ختم ہوگیا ،اس کا نتیجہ کیا ہوگا، ہفتے میں 2دن لوگ مارکیٹ نہیں آئیں گے تو وبا کا پھیلاؤ زیادہ نہیں ہوگا۔
جسٹس سردارطارق نے کہا مالز محدود جگہ پر ہوتے ہیں جہاں احتیاط ممکن ہے،راجہ بازار،موتی بازار،طارق روڈپررش زیادہ ہوتا ہے، مالزکھولنے کا الزام عدالت پر نہ لگائیں۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا ٹڈی دل کا بڑا ریلا ایتھوپیا سے پاکستان کی جانب بڑھ رہاہے، ٹڈی دل سے نمٹنے کیلئے اقدامات کیے جارہےہیں، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ٹڈی دل کو قابو نہ کیا تو آئندہ سال فصلیں نہیں ہوں گی، پہلے بھی ٹڈی دل آتا تھا لیکن2ہفتے میں اسے ختم کردیا جاتا تھا، فصلوں کے تحفظ کے ادارے کے پاس جہاز تھے، جو ٹڈیوں سے نمٹتے تھے۔
چیئرمین این ڈی ایم اے محمدافضل نے کہا اس وقت 20میں سےصرف ایک جہاز فعال ہے، مزید ایک جہاز بھی خرید لیا ہے، پاک فوج کے 5ہیلی کاپٹرز کی خدمات بھی حاصل کی گئی ہیں، توقع ہےٹڈی دل سے جلدنمٹ لیا جائے گا۔
سپریم کورٹ نے سینٹری ورکرزکوتنخواہیں اورحفاظتی سامان مہیا کرنے کا حکم دیتے ہوئے وفاق اور صوبائی حکومتوں کی کوروناخطرات پر ماہرین کی ٹیم بنانے کی استدعامسترد کردی اور وفاق اور صوبائی حکومتوں سے پیشرفت رپورٹس طلب کرلیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا وضاحت کردیں ہفتہ اتوار کا لاک ڈاؤن عید تک ہے، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 8جون کو ہونے والی سماعت میں وضاحت کردیں گے۔

Leave a reply