سپریم کورٹ: ججز کے خط پر ازخود نوٹس کی سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی
سماعت کے اغاز ہر وکلا کی جانب سے گفتگو پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ برہم ہو گئے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر کوئی گفتگو کرتا نظر آیا تو اسے کمرہ عدالت سے باہر نکال دیا جائے گا،میں آپکو 184(3) کے استعمال کے حوالے سے بتانا چاہتا ہوں، کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ تمام دستیاب ججز پر مشتمل فل کورٹ تشکیل دیا جائے ،فل کورٹ بناتے ہوئے انتخاب نہیں کیا گیا، جسٹس یحییٰ آفریدی کو صرف بینچ سے علیحدہ نہیں کیا، جسٹس یحییٰ خان آفریدی نے علیحدہ ہوتے وقت کچھ آبزرویشنز بھی دی ہیں ،دو ججز کے عدم دستیابی کے باعث فل کورٹ تشکیل نہیں ہوسکتی،سابقہ چیف پر اعتراضات کئے گئے تو وہ کمیشن سے علیحدہ ہوگئے،ہر کوئی اپنی خواہش عدلیہ ہر مسلط کرنا چاہتا ہے، یہ بھی دباؤ کی ایک قسم ہے، میں سپریم کورٹ کی تاریخ کا ذمہ دار نہیں، جب سے چیف جسٹس بنا ہو ں تب سے ذمہ داری ہے، عدالتی مداخلت اندر، باہر ، انٹیلیجنس ایجنسیز سمیت سوشل میڈیا اور فیملی سے بھی ہوسکتی ہے،میں اس عدالت کی تاریخ کا ذمہ دار نہیں ہوں، اپنے دور کا ذمہ دار ہوں،پارلیمان نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ بنایا کیوں کہ ہم ناکام ہوئے، ہم عدلیہ کی آزادی کا تحفظ کریں گے جیسے بھی ہو، ماضی کی غلطیاں سامنے آنے پر ہم نے اپنی تصحیح کی،تبدیلی راتوں رات نہیں آتی ،ہمیں اپنی مرضی کے راستے پر چلانے کیلئے مت دباؤ دیں ، عدلیہ کو اپنی مرضی کے راستے پر دھکیلنا بھی مداخلت ہے، بہت سے لوگ مقدمہ میں فریق بننا چاہتے، مثبت بات کو بغیر فریق بنائے بھی سنیں گے، کیا تجاویز اٹارنی جنرل آپکے پاس ہیں،ہائیکورٹ کی تجاویز سے شروع کرتے ہیں، آپ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کی سفارشات دیکھی ہیں؟اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہا کہ ہ میں نے ہائیکورٹ کی سفارشات ابھی نہیں دیکھیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے استفسار کیا کہ اب اس معاملے کو کیسے آگے چلائیں؟
صرف تجاویز نہیں ،چارج شیٹ ہے،ہائیکورٹ جج کا پرسنل ڈیٹا سوشل میڈیا پر ڈالا گیا ،جسٹس اطہرمن اللہ
جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ صرف تجاویز نہیں ،چارج شیٹ ہے، ریاست کا ججز کے خلاف ہونا ہائیکورٹ خط میں بتایا گیا ہے،ہائیکورٹ جج کا پرسنل ڈیٹا سوشل میڈیا پر ڈالا گیا ،اندرونی مسائل کا ہم نے حل تلاش کرنا ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اس کیس میں ہمارے پاس یہ موقع ہے کہ معاملے کو حل کریں،ہمیں مداخلت کے سامنے ایک فائر وال کھڑا کرنی ہو گی، ہمیں بیٹھ کر اس مسئلے کو حل کرنا ہو گا، ہمیں طے کرنا ہو گا کہ اگر کوئی مداخلت کرتا ہے تو اس کے خلاف کیسے ایکشن لینا چاہئے،
ہائیکورٹ کے کام میں مداخلت نہیں کرنی، ماضی میں مداخلت کے نتائج اچھے نہیں نکلے،چیف جسٹس
بعد ازاں اٹارنی جنرل نے عدالت میں ہائیکورٹ کی سفارشات پڑھ کر سنائی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے ہائیکورٹ کے کام میں مداخلت نہیں کرنی، ماضی میں ہائیکورٹس کے کام میں مداخلت کے نتائج اچھے نہیں نکلے،جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتےہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کہہ رہے ہیں کہ مداخلت تسلسل کے ساتھ ہوتی ہے، کیا اسلام آباد ہائیکورٹ کی تجاویز متفقہ ہیں؟اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جی ہاں بظاہر متفقہ نظر آ رہی ہیں،جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ اس کا مطلب ہے کہ کسی جج نے اختلاف نہیں کیا۔
آج سنہری موقع ہے عدلیہ پر دباؤ اور مداخلت کو ہمیشہ کیلئے ختم کیا جائے،جسٹس منصور علی شاہ
جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ دو بینچ کے ممبران کو ٹارگٹ کیا گیا،ہم نے نوٹس لیا ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے، فیصلہ ایک نہیں دس دے دیں کیا ہو گا ،جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بچے ،فیملی ممبران کا ڈیٹا حکومتی اداروں سے چرایا گیا، ججز کو صرف کہہ دیں تمہارا بچہ فلاں جگہ پڑھتا ہے،میں نے 2018 میں بطور چیف جسٹس 4 سال کام کیا اس دوران مداخلت نہیں ہوئی،ایسا لگتا ہے کہ لوگ مداخلت کی کوشش کرتے ہیں کہیں ان کو فائدہ ہوتا ہے کہیں نہیں ہوتا،ایسا کلچر چل رہا ہے،جسٹس بابر ستار کے ساتھ جو ہوا ہے سامنے ہے،بیوی بچوں تک کا ڈیٹا پبلک ہو جائے تو ذمہ داری ریاست کی ہوتی ہے، 76 سال سے اسٹیبلشمنٹ اور جوڈیشری میں پارٹنرشپ چل رہی ہے، جسٹس بابر ستار کے ساتھ جو ہوا ہے سامنے ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مہربانی کریں 76 سال میں مجھے شامل نہ کریں، کوئی مداخلت ہوئی ہے تو ظاہر کریں، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آج اس ایشو کو حل نہ کیا تو بہت نقصان ہوگا ،اس کمرے میں نہ بیٹھو ادھر بیٹھو ، فون ادھر رکھ دو کس طرح کا کلچر ہے یہ، آج سنہری موقع ہے عدلیہ پر دباؤ اور مداخلت کو ہمیشہ کیلئے ختم کیا جائے،ہائیکورٹ خود کارروائی کر سکتی تھی مگر نہیں کی، سپریم کورٹ اس معاملے پرطریقہ کار واضح کرتی ہے توعدلیہ مضبوط ہوگی۔یہ کس قسم کی ریاست ہے کہ ہر وقت اس چیز کا ڈر لگا رہتا ہے کہ کوئی ہمیں دیکھ رہا ہے، کوئی ہمیں سن رہا ہے، کوئی ہماری ریکارڈنگ کر رہا ہے، کیمرے ہماری ویڈیو بنا رہے ہیں،کیا ریاست اس طرح چلائی جاتی ہے؟چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مخصوص نتائج کے حصول کیلئے یہاں مخصوص اقدامات اٹھائے جاتے رہے میں نے پہلے دن کہا تھا کہ کوئی مداخلت نہیں کروں گامیں جب سے چیف جسٹس پاکستان بنا کوئی شکایت نہیں آئی. اگر میرے کام میں مداخلت ہو اور وہ نہ روک سکوں تو میں گھر چلا جاؤں،ہم تو چاہتے ہیں پارلیمنٹ کو مضبوط بنائیں، اگر پارلیمنٹ مضبوط نہیں ہوگی تو دوسری قوتیں مضبوط ہونگی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدلیہ کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا رہا،وکلا اور سیاست دان عدلیہ میں مداخلت کرتے رہے،چیف جسٹس کےچیمبر میں ملاقاتیں ہوتی تھیں،جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگرعدلیہ کے اندر سے مداخلت ہے تو عدلیہ کی کمزوری ہے،مداخلت اب بھی جاری ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ 2018 میں جو ہمارے خلاف مہم چلائی گئی اس پر کچھ نہیں کہا کیونکہ ہم نے حلف لیا ہے،مکران کا سول جج بھی اتنا ہی طاقت ور ہے جتنا چیف جسٹس پاکستان ہے،میں نے عدلیہ کے آزادی کے لیے اندرونی مداخلت سے جنگ لڑی ہے، عدلیہ کی آزادی کو اندرونی مداخلت سے خطرہ ہے، فیض آباد دھرنا کیس پر عملدرآمد رکوانے کے لیے متعدد پٹیشنرز سامنے آئے، اس فیصلے پر عملدرآمد نہیں کیا، تحریک انصاف نے بھی کیا، ضیا الحق کے صاحبزادے نے بھی پٹیشن دائر کی اور متعدد پٹیشنر سامنے آئے،5 سال تک نظرثانی اپیلیں سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوئیں، کیا اس کی کوئی وضاحت دی جاسکتی ہے؟سوشل میڈیا پر جو کچھ ہوا اسی وجہ سے سابق چیف جسٹس نے کمیشن کی سربراہی سے انکار کیا. مداخلت ایجنسیوں کے علاوہ خود عدلیہ کے اندر سے، ججز کی فیملیز سے، ساتھ کام کرنے والوں سے، سوشل میڈیا سے بھی ہوسکتی ہے.اگر ہم مانیٹرنگ جج لگائیں گے تو وہ بھی عدلیہ کی مداخلت ہے، اگر جے آئی ٹی میں انٹیلیجنس ایجنسیز کے بندے شامل کریں گے تو وہ بھی مداخلت ہے.
چاہے کوئی بھی ریٹائرڈ چیف جسٹس ہو یا موجودہ چیف جسٹس کوئی قانون سے بالاتر نہیں ،جسٹس اطہرمن اللہ
جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سچ سب کو پتا ہے، بولتا کوئی نہیں ہے، جو سچ بولتا ہے اس کے ساتھ بھی وہی ہوتا ہے، جو چھ ججز کیساتھ ہو رہا ہے، انٹیلی جنس ادارے وزیراعظم کے ماتحت ہوتے ہیں،انٹیلی جنس ادارے کچھ کرتے ہیں تو اسکے ذمہ دار وزیراعظم اور انکی کابینہ ہے، آئین دیکھ لیں کچھ بھی آزادانہ نہیں ہوتا، ہمیں اپنی آرمڈ فورسز کا امیج بھی برقرار رکھنا ہے، یہ ہماری ہی مسلح افواج ہے جو ملک کے محافظ ہیں، یہ ہمارے سولجرز ہیں جو ملک کا دفاع کرتے ہیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ دباو ہر جگہ ہوتا ہے کیا بیوروکریسی میں فونز نہیں آتے ، کوئی مان لیتا ہے اور کوئی کام کر دیتا ہے جو نہیں مانتا اس کو او ایس ڈی کر دیا جاتا ہے۔ وہ اس دباو میں پر تو کچھ کر ہی نہیں سکتا، دباو تو ہر جگہ ہوتا ہے، بیوروکریسی کے پاس تو کوئی اختیار ہی نہیں ہمارے پاس تو اختیارات ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اختیارات کیوں استعمال نہیں کرتا،جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے دروازے خود کھولے ہیں اس لیے دباو آرہا ہے، یہ دروازے بند ہونے چاہیے بدقسمتی سے ہم نے خود دروازے کھولے ہیں، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جس نے دروازے کھولے ہیں ان کے خلادف مس کنڈیکٹ کی کارروائی کریں نا، ہر بندہ اتنا تگڑا نہیں ہوتا کہ وہ کھڑا ہو جائے یہ سسٹم مضبوط ہونا چاہیے، جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ ہمیں سب سے پہلے سپریم کورٹ کا دروازہ بند کرنا ہوگا، اس کے بعد دوسرے لوگوں کو ہمت ملے گی، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ اگر کوئی جج کھڑا ہوتا ہے وہ اس کے خلاف ریفرنس دائر ہوجاتا ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ریفرنس کس کے پاس آتا ہے کسی ایجنسی کے پاس تو نہیں آتا نا ، اٹھا کر پھینک دے اس ریفرنس کو باہر پھینک دیں جرمانے عائد کر دیں، ہم نے ایسا کیا ہے؟ جسٹس اطہرمن اللہ نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اتنا بڑا فیصلہ ہے جسٹس شوکت صدیقی کا آپ نے کیا کیا ہے؟ کس کا احتساب کیا ہے؟ کیا کوئی کارروائی ہوئی ہے؟ صرف فیصلے دینے سے کچھ نہیں ہوگا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ مائی لارڈ اس میں سابق چیف جسٹسز ملوث ہیں،جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ چاہے کوئی بھی ریٹائرڈ چیف جسٹس ہو یا موجودہ چیف جسٹس کوئی قانون سے بالاتر نہیں ، جب تک کسی کے خلاف کارروائی نہیں ہوگی یہ سلسلہ نہیں رکے گا۔ ہم سب ہائیکورٹس میں رہ چکے ہیں ہمیں فئیر ہونا چاہیے، ہائیکورٹ کے ججز کی شکایات پر پاورفل جواب نہیں ملتا، احکامات سے انحراف کا کلچر معمول بننے سے ججز کی بولنے میں حوصلہ شکنی ہوتی ہے،
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ اب آپ جسٹس یحیی آفریدی کا نوٹ پڑھیں،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ پڑھنے سے پہلے آپ دیکھیں آپ خود مان چکے 2017 میں آپ کیخلاف پولیٹیکل انجینئرنگ تھی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سیاست کو چھوڑ دیا جائے ، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ یہ سیاست نہیں حقیقت ہے،کبھی بھی سول بالادستی نہیں رہی، جب ریاست خود جارحیت پر اتر آئے کوئی شہری اس سے لڑ نہیں سکتا، ادارہ جاتی رد عمل ہی اس کا حل ہے، ہم سچ بولیں گے، کیونکہ سچ بولنا ہماری ذمہ داری ہے، بدقسمتی سے سچ کیوں نہیں بولتا اور کوئی بول دیتا ہے تو اس کے ساتھ وہ ہوتا ہے جو اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے ساتھ ہورہا ہے اور پورے ملک کی عدالتیں اب اس کی تصدیق کر رہی ہیں،
کوئی مداخلت برداشت کر جاتا ہے، ختم کرنے کیلئے کچھ نہیں کرتا تو ایسے جج کو اپنی کرسی پر بیٹھنا ہی نہیں چاہیے،جسٹس مسرت ہلالی
سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کی بھجوائی گئی تجاویز پبلک کرنے کا حکم دے دیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہر چیز ہی میڈیا پر چل رہی ہے تو ہم بھی پبلک کر دیتے ہیں،جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ شکایات کرنے والوں کو چھوڑیں، ازخود نوٹس لینے پر سپریم کورٹ کیساتھ کیا کچھ ہوا یہ دیکھیں،کیا عدلیہ کی آزادی ایسے ہو سکتی ہے، جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی مداخلت برداشت کر جاتا ہے اور اُسے ختم کرنے کیلئے کچھ نہیں کرتا تو ایسے جج کو اپنی کرسی پر بیٹھنا ہی نہیں چاہیے،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہائیکورٹس کے ججز نے لکھا ہے، کیوں نہ اس پر تینوں حساس ادارے اپنا جواب تحریری طور پر جمع کرائیں،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ ان کو چاہئے کہ اس پر ایک بیان حلفی جمع کرائیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میرے خیال میں اس معاملے پر قانون سازی ہونی چاہئے ،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ایجنسیوں کو بیانات حلفی دینے دیں کہ ان کی طرف سے مداخلت نہیں ہوتی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی مجھ سے پوچھے گا تو میں تو کہوں گا کہ مداخلت ہوئی لیکن ہمیں مستقبل کا دیکھنا ہے،
پوری قوم ہماری طرف دیکھ رہی ہے ،اگر ہم متحد ہونگے تو مضبوط ہونگے ،چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان بار کونسل اور دیگر بار کونسلز اپنی تحریری معروضات جمع کروا دیں ،ہم اس کیس کو زیادہ لمبا نہیں لے کر جا سکتے،لوگوں کے دیگر کیسز بھی لگے ہوئے ہیں ،ہدف ایک ہے سب کا اس طرف پہنچنا کیسے ہے آپ معاونت کر دیں،پوری قوم ہماری طرف دیکھ رہی ہے اگر ہم متحد ہونگے تو مضبوط ہونگے ، نمائندہ اسلام آباد بار ایسوسی ایشن نے کہا کہ اداراتی ریسپانس کے دو طریقے ان میں فل کورٹ بھی شامل ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اب کوئی دو ججز نہیں آئے تو کیا کریں انکا ؟ پھر ملتوی کرنا پڑ جاتا کیس،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ججز خط پر از خود نوٹس کیس کی سماعت 7 مئی تک ملتوی کر دیتے ہیں،جن لوگوں نے درخواستیں دائر کر رکھی ہیں سب فریقین کو سننا مشکل ہوجائے گا،تمام فریقین تحریری معروضات دے دیں،فریقین چھ مئی تک جوابات جمع کرا دیں،
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آج کی سماعت کا حکمنامہ لکھوادیا،حکمنامے میں کہا کہ 5 ہائیکورٹس نے اپنی تجاویز جمع کرائیں،اٹارنی جنرل نے دوران سماعت تجاویز پڑھ کر سنائیں، پاکستان بار کونسل نے اپنی تجاویز بھی جمع کرائیں، مناسب ہو گابار ایسوشی ایشنز اور بار کونسلز متفقہ طور پر کوئی جواب جمع کرائیں، جن نکات پر اتفاق نہ ہوان کو الگ دائر کیا جاسکتا ہے، بتایا گیا ہے کہ اس معاملے پر سپریم کورٹ بار کا اجلاس نہیں ہوا،بتایا گیا سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن آئندہ سماعت سے قبل تجاویز جمع کرا دے گی، حکومت اور انٹیلیجنس ایجنسیز، اٹارنی جنرل کے ذریعے اپنے اوپر لگے الزامات کا جواب دیں اور اگر کوئی تجاویز ہیں تو وہ بھی دیں.
اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز نے تجاویز دیں کہ شکایات خفیہ رکھی جائیں،عدلیہ اور حکومتی شاخوں سے بات چیت کرکے طریقہ کار طے کرنے کا سنہری موقع ہے، ججز کو ایجنسیوں یا انکے نمایندگان سے ملاقاتیں نہیں کرنی چاہیے، ججز کو سوشل میڈیا جیسے کہ وٹس ایپ، انسٹاگرام اور فیس بک سے دور رہنا چاہیے، عدالتی احاطے میں ایجنسیوں کے نمائندگان کا داخلہ بند ہونا چاہیئے،
8 ججز کو پاؤڈر والے دھمکی آمیز خط،شیر افضل مروت نے الزام ن لیگ پر لگا دیا
اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کو دھمکی آمیز خطوط بھیجنے کا مقدمہ درج
اسلام آباد ہائیکورٹ ججز کے خط کے بعد نئی صورت حال سامنے آگئی
عمران خان کو رہا، عوامی مینڈیٹ کی قدر کی جائے،عارف علوی کا وکلا کنونشن سے خطاب
جماعت اسلامی نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے لیے بنائے گئے انکوائری کمیشن کو مسترد کر دیا۔
ججز کا خط، سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی انکوائری کمیشن کے سربراہ مقرر
ہائیکورٹ کے 6 ججز نے جو بہادری دکھائی ہیں یہ قوم کے ہیرو ہیں،اسد قیصر
لاہور ہائیکورٹ کے ججز کو بھی مشکوک خط موصول
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججوں نے عدالتی کیسز میں خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت پر سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھ دیا ہے جس میں عدالتی معاملات میں انتظامیہ اور خفیہ اداروں کی مداخلت پر مدد مانگی گئی ہے۔ہائی کورٹ کے ججوں کی جانب سے لکھے گئے خط کی کاپی سپریم کورٹ کے تمام ججوں کو بھی بھجوائی گئی ہے۔ خط میں عدالتی امور میں ایگزیکٹو اور ایجنسیوں کی مداخلت کا ذکر کیا گیا ہے۔ہائی کورٹ کے ججوں نے سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط میں مطالبہ کیا ہے کہ عدلیہ میں خفیہ اداروں کی مداخلت اور ججز پر اثرانداز ہونے کے معاملے پر جوڈیشل کنونشن بلایا جائے۔سپریم جوڈیشل کونسل کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججوں نے خط ارسال کیا ہے۔ خط لکھنے والوں میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحاق، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز شامل ہیں۔خط کے متن کے مطابق ’عدالتی امور میں مداخلت پر ایک عدلیہ کا کنونشن طلب کیا جائے جس سے دیگر عدالتوں میں ایجنسیوں کی مداخلت کے بارے میں بھی معلومات سامنے آئیں گی۔ خط میں کہا گیا ہے کہ عدلیہ کے کنونشن سے عدلیہ کی آزادی کے بارے میں مزید معاونت حاصل ہو گی۔