شیخ سعدی نے کہا تھا کہ کبوتر کبوتروں کے ساتھ اڑتے ہیں اور باز بازوں کے ساتھ دراصل یہ معاشرتی طبقات کی طرف اشارہ تھا ۔
ہمارا معاشرہ اب اتنے ہی طبقات میں تقسیم ہوچکا ہے جتنے حشرات چرند پرند اس زمین پر بستے ہیں۔ اس طبقات کی جنگ میں اب عام آدمی کو اپنا معیار پرکھنا پڑے گا کہ وہ کون ہے. لیکن عام آدمی کو یہ معیار کیسے پتہ چلے گا کہ وہ کون ہے ۔ ہمارے ہاں اتنے طبقات ہیں کہ گننا مشکل ہے۔ چلیں سب سے کمزور طبقہ پکھی واس اس سے اوپر فقیر اس سے اوپر مزدور دیہاڑی داراس سے اوپر ریڑھی والے اس سے اوپر چھابڑی والے اس سے اوپر سب سے اوپر وہ جن کا یہاں وجود بھی نہیں لیکن حکم انہی کا چلتا ہے ۔۔

بقول ایک شاعر کے کہ جب وہ فیصلے کرتے ہیں تو خدا بھی احتیاطاََ آسمانوں میں کہیں خاموش بیٹھ جاتا ہے
ہمیں اب اس درجاتی تقسیم کے مطابق اپنے شہروں دیہاتوں اور جنگلوں کو تقسیم کرلینا چاہیے۔ جنگلوں میں بھی جانوروں کے اپنے اپنے علاقے ہوتے ہیں جیسے جنگل میں جس گوشت خور جانور کا جتنا بڑا جبڑا ہوتا ہے وہ اتنا ہی بڑا حصہ وصول کرتا ہے ہمارے انسانوں کے جنگلوں میں بھی یہی دستور رواج پا چکے ہیں ۔ ہم نے پہلے ہی اپنی طبقاتی طاقت کے حساب سے
سکول کالونیاں شاپنگ مال تھانوں میں حصہ کچہریوں میں پروٹوکول عدالتوں میں انصاف کا معیاراسمبلیوں میں حصہ سب کچھ بنا لیا ہے
صرف اعلان کرنا باقی ہے۔

اگراعلان کردیا جائے اور متناسب نمائندگی کے حساب سے ہر ایک کو زندہ رہنے کا کوٹہ بھی فراہم کردیا جائے
تو شاید کچھ ایسے لوگوں کی توقعات ختم ہوجائیں جن کے دلوں میں ابھی تک ایک امید انگڑائی لیتی ہے کہ شاید ان کے لئے بھی کچھ ہوگا۔۔۔ کہ شاید وہ اس غلامانہ زندگی سے آزاد ہوجائیں گے ۔ شاید انہیں بھی وہی سب میسر ہوگا جو ترقی یافتہ علاقوں میں لوگوں کو میسر ہے ۔
اگر یہ اعلان کر دیا جائے کہ اس معیار سے نیچے والے غلام ہوں گے اور اس معیار سے اوپر والے آقا تو شاید بہت سے لوگوں کے دلوں کو سکون مل جائے۔

قدیم عرب میں رواج تھا کہ جب مال غنیمت میں حاصل ہونے والی عورتیں اور مرد بازار میں باقاعدہ فروخت ہوتی تھیں۔ جانوروں کی طرح ان کی بولیاں لگتی تھیں اور بیوپاری جانوروں کی طرح ہی ان کا بہاؤ کرتے تھے کسی کو سرکشی کی اجازت نہ تھی ۔قدیم وقت میں امریکہ میں تو غلاموں کو کام پر لگانے سے پہلے ان کے منہ پر ایک لوہے کا خول چڑھا دیا جاتا تھا کہ پھل توڑتے ہوئے یہ لوگ پھل نہ کھا سکیں یا اناج نہ کھا سکیں ۔ امریکہ میں غلاموں کے بچوں کو مگر مچھ پکڑنے کے لئے بطور چارہ استعمال کرنے کی اجازت ہوتی تھی۔۔
جو حد سے گزرتا تھا اسے کوئی بھی قتل کردیتا تھا اور پوچھ پکڑ کرنے والا کوئی نہیں ہوتا تھا۔
ادھر بھی اب ایسا ہی چلتا ہے۔ سر کشی کرنے والوں کو ادھیڑ کے رکھ دیا جاتا ہے اور ظالم کی آرام سے ضمانت ہوجاتی ہے۔یہاں غلاموں کے بچوں کو مگر مچھ کھاتے نہیں لیکن جنسی تشدد کا نشانہ بنا کر مار ڈالتے ہیں ۔ ظلم کرنے والے کو ملک چھوڑ کر کسی دوسرے ملک میں رہنے کی کھلے عام اجازت ہوتی ہے جبکہ غلام نسلوں کو ویزہ بھی نہیں ملتا۔۔۔ہزار طرح کے بہانے ہوتے ہیں۔ جیسے جیسے سوچتا ہوں میرے دل میں یہ خواہش مزید پختہ ہوتی جاتی ہے کہ اگر ہمارا معاشرہ باقاعدہ انسانیت کے معیارمقررکردے۔ جیسے پڑوس میں اچھوت، شودر کھتری برہمن ہیں۔ ہم بھی تو ایسے ہوسکتے ہیں ۔۔ جیسے ابن عربی نے کہا تھا۔

@I_G68

Shares: