جارج فلوئڈ، جارحیت کا شکار معصوم بچوں کا عالمی دن اور ہمارا احتجاج تحریر محمد نعیم شہزاد

جارج فلوئڈ، جارحیت کا شکار معصوم بچوں کا عالمی دن اور ہمارا احتجاج
محمد نعیم شہزاد

اس دنیا کے رنگ نرالے ہیں، امریکہ میں ایک سیاہ فام پولیس سے کی انتظامی کاروائی سے ہلاک ہوتا ہے تو اس پر پوری دنیا میں احتجاج بپا کیا جاتا ہے۔ دنیا کرونا وائرس کی زد میں ہے اس کے باوجود لوگ گھروں سے نکلتے ہیں اور احتجاج ریکارڈ کراتے ہیں۔ پوری دنیا میں ہلچل مچ جاتی ہے۔ دوسری طرف دس ماہ سے زیادہ مدت سے کشمیری بدترین کرفیو اور لاک ڈاؤن کا سامنا کر رہے ہیں، وہی کشمیری جہاں بھارت گزشتہ 73 برس سے ناجائز قبضہ کیے ہوئے ہے۔ ابھی کل کی بات ہے کہ دوبارہ سے بدترین خود ساختہ encounter میں گزشتہ دو دن میں 18 افراد کو شہید کر دیا گیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ افراد کسی اقلیتی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں مگر حقیقت اس کے بر عکس ہے یہ مظلوم افراد قریب 60 ممالک کے سرکاری مذہب کے ماننے والے کلمہ گو ہیں۔ اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو دنیا کی ایک چوتھائی آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے مگر یہ کلمہ پڑھنے والے ایک دوسرے کے دکھ درد سے نا آشنا اور بیگانہ ہو گئے ہیں، انھیں فلسطین اور شام میں بے گھر اور بے سہارا بچے نظر نہیں آتے، ان کے دل ان کے دکھ سے نہیں پسیجتے اور یہ ان کے لیے ایک آواز بلند کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ آج کا دن ہم عالمی طور جنگ کا شکار معصوم بچوں کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ تاریخ کی ورق گردانی کیجیے تو معلوم ہو گا 19 اگست 1982 میں اقوام متحدہ میں کیوں قرارداد پاس کی گئی اور اس دن کے منانے کا آغاز کیا گیا۔ انتہائی کسمپرسی کا عالم ہے کہ یہ دن اسرائیلی جنگی جارحیت کا شکار ہونے والے معصوم فلسطینی اور لبنانی بچوں کے نام پر منایا گیا جو تاحال اسی کرب اور جارحیت کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان کے شب و روز اب بھی ویسے ہیں اور ان کی شنوائی کسی فورم پر نہیں ہو پاتی۔ اور ہو بھی کس طرح جب اپنی قوم کے لوگ بیگانہ ہو گئے اور ان تکالیف پر بے چین نہ ہوئے تو دوسرا کوئی کیوں مضطرب ہو گا اور اس کا مداوا کرے گا۔ divide and rule کی پالیسی کا شکار مسلم ممالک اور شہریوں میں طرح طرح کی ناچاقیاں اور نا اتفاقیاں ہیں اور مسلم حکومتیں اور ایوان ان سازشوں کا شکار ہو کر رہ گئے ہیں۔ حالانکہ ان کو یہ سبق اللہ تعالیٰ نے اپنی الہامی کتاب کے ذریعے بھی سکھا دیا تھا کہ آپس کی ناچاقی اور بے اتفاقی کا نتیجہ دنیا میں کمزوری اور بے توقیری کی صورت بھگتنا پڑے گا۔
اتحاد کی کوششوں کو دیکھا جائے تو اس میں بھی واضح گروپ بندی اور بلاکس نظر آتے ہیں۔ کہیں لوگ اس قدر بے حس ہو گئے ہیں کہ ان کے لیے اپنے معاشی پلان اور پروگرام سب سے بڑھ کر ہیں۔ اپنے اتحاد و اتفاق کو پارہ پارہ کر کے آج ہم مغربی اقوام متحدہ کی جانب امید سے دیکھتے ہیں۔ مسلم کمیونٹی کی مظلومیت پر ان سے انصاف اور مساوات کا سوال کرتے ہیں کبھی بین الاقوامی تنظیموں اور اداروں سے سوال کرتے نظر آتے ہیں اور خود اس بات کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ یہ ادارے رسمی کاروائی کرتے ہیں ان کی کارکردگی رپورٹس جاری کرنے سے بڑھ کر کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتی تو پھر ہم کیوں انہیں اداروں کے سامنے اپنے مسائل اجاگر کرنے پر مجبور ہیں؟ کیا دھوکہ یہ عالمی ادارے دے رہے ہیں یا ہم خود کسی اور دھوکے میں مبتلا ہیں؟
اسی کتاب ہدی جس پر ہم ایمان رکھتے ہیں کہ لاریب ہے ہمیں یہ بھی سکھا دیا کہ اللہ تعالیٰ کبھی اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جسے اپنی حالت بدلنے کی خود سے فکر نہ ہو۔ تو آخر ہم کب تک خواب غفلت میں پڑے رہیں گے؟ اللہ تعالیٰ کی پکڑ شدید اور اس کا عذاب بڑا دردناک ہے۔ کرونا کا وبال سب کے سامنے ہے۔ یہ وقت توبہ اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کا ہے۔ اپنی غلطیوں کا ازالہ کرنے اور متحد ہونے کا وقت ہے۔ جب تک اپنی صفوں میں اتحاد کی فضا قائم نہیں کی جائے گی اور امت اسی طرح بٹی رہے گی مسلم قوم کی حالت درست نہیں ہو سکے گی۔ ظالم کا ہاتھ پکڑنے والا کوئی نہ ہو گا اور رسول عربی کے ماننے والے ابتلاء کا شکار رہیں گے۔

Leave a reply