مٹی کیا ہے؟ . تحریر : کامران واحد

کیا یہ بنی نوعِ انسان کے وجود کا عنصرِ اعظم ہے؟
کیا یہ نباتات کی افزائش کا محرکِ اعلیٰ ہے ؟
کیا یہ فرشِ زمین کی تہوں میں موجود بنیادی مرکب ہے؟
کیا یہ ریگزاروں کا جلتا ہوا جسم ہے؟
اور کیا یہ شہرِ خموشاں میں مردہ اجسام کی شکست و ریخت کا اصل ذمہ دار ہے؟
جی نہیں مٹی کے معانی اس سے کہیں بلند تر ہیں
مٹی محبت کا پہلا آئینہ ہے۔ ہمارے اور ہمارے اردگرد کے ہر قسم کے اجمالی وجود کا آئینہ، جو انسانی عکس کو سنبھالے ہوئے ہے۔

تو جب انسان اپنی مٹی سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں تو اس دعویٰ کا اصل کیا ہے؟
اس کا اصل اپنے مٹی سے گندھے وجود کو کسی مقصدِ اعلیٰ کے لیے اپنے محیط کی مٹی میں ضم کر دینا ہے۔
اور اس کی سب سے بہترین شکل مٹی کے خالق اور وطن کی خاطر اپنے جسم وجان قربان کرنا ہے۔
وہ انسان عظیم ہیں جو اس مقصدِ اعلیٰ کے لیے اپنا سب کچھ لٹانے پر مصر ہیں۔
وہ بھی جو دن رات اپنی تمام تر قوتیں اور محنتیں اپنے مٹی کی محبت میں خرچ کر رہے ہیں اور وہ بھی جو اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر دیتے ہیں۔
ہم مٹی ہیں اور ہمارے وطن کی عظیم مٹی میں بے شمار شہداء کی مٹی ضم ہے۔
ان سرپھروں کی مٹی جو اپنی جوانیاں اس مٹی کی حفاظت میں لٹادیتے ہیں۔
ان مٹی سے بنے انسانوں کو مٹی اپنے سر کا تاج سمجھتی ہے اور اپنے اوپر ان کی نقل و حرکت کو اپنے لیے باعثِ اعزاز سمجھتی ہے۔

مگر افسوس یہ ہے کہ اسی مٹی کا احسانِ وجود اٹھانے والے کچھ مٹی سے بنے لوگ، ان جوانیاں لٹانے والوں کی توھین اور استہزاء میں سرگرمِ عمل ہیں-
ایسے لوگ ضمیر فروش بھی ہیں اور احسان فراموش بھی۔
بھلا اس سے بڑھ کر احسان فراموشی اور ضمیر فروشی کیا ہوسکتی ہے کہ اسی مٹی سے بنے انسان کو اپنے وطن کی مٹی کی تزئین اور ارتقاء سے بیر ہوجائے۔
آخر کون لوگ ہیں یہ۔ ان کی پہچان کیا ہے۔
ان کی سب سے بڑی پہچان ان کے سینوں میں موجود مٹی کا بغض ہے جو ان کے مٹی سے بنے ہونٹوں سے زہر کی طرح اگلتا ہے۔
اے مٹی کے بنے انسانو! مٹی کے ان دشمنوں کو پہچانو۔ وگرنہ شہرِ خموشاں کی مٹی اپنا قرض سود سمیت وصول کرنے کو تیار ہے۔

Comments are closed.