80ء کی دہائی میں جب سوویت یونین افغانستان میں میں اپنے پیر جمانے کے لئے داخل ہوئی تو اس وقت افغانستان میں موجود ایک مخصوص طبقے نے ان روسیوں کا بھرپورساتھ دیا۔ روس نے بھی ان ضمیر فروشوں کو اپنے عزائم کے لیے خوب استعمال کیا۔ یہ طبقہ بنیادی طور پر کیمونیسٹ تھا جنہیں آجکل سرخے کا نام سے جانا جاتا ہے۔
بنیادی طور پر سرخہ جس کا مقصد ہی غلامی ہے انکی ذہنیت مادرپدر آزادی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ یہ لبرلزم کے نام پر مذہبی اور ثقافتی ورثے کی تباہی کا باعث بن رہے ہیں۔ پہلے یہ روسیوں کے ساتھ تھے اور اب بھارت کے مہرے بنے ہوئے ہیں۔ انکی حیثیت کسی استعمال شدہ ٹشویپرز کے جیسی ہے۔ یہ پہلے استعمال ہوتے ہیں جیتے جی اور پھر انکی لاشیں بھی اسی دشمن کے ایجنڈے کو سرو کرتیں ہیں جسکے انہیں معاوضے تک نہیں ملتے۔۔۔ حالیہ دنوں میں اسکی ایک مثال بھی ملی۔ شوشل میڈیا پر ایک تصویر وائرل ہوئی جسکے ساتھ یہ تحریر درج کی جا رہی تھی
ٹویٹ کا لنک: https://twitter.com/ManzoorPashteen/status/1420063152620941323
ٹویٹ کے ساتھ پوسٹ ہونے والی یہ تصویر غالباً چھے سال پرانی ہے اور یہ ٹویٹ کرنے والا کوئی اور نہیں بلکہ پاکستان میں پشتون قوم کو تحفظ کے نام پر چونا لگانے والا منظور پشتیں ہے جس نے نقیب اللہ محسود مومنٹ کو ہائی جیک کر کے اپنے ناپاک ملک دشمن عزائم کو پورا کیا اور خوب پیسے کمائے۔
یاد رہے کہ جسے بار بار پاک افغان سرخہ گروپ "مزاح نگار” کہہ رہا ہے وہ درحقیقت ہتھیاروں کا شوقین ایک بچہ باز شخص تھا۔ اپنی پچاس سالہ زندگی میں کمال محنت سے جرائم کی دنیا میں بھی اس نے خوب نام کمایا تھا۔ بچوں سے جنسی تعلق استوار کرنے کا شوقین یہ شخص دکھنے میں ہی پرانی بالی ووڈ فلموں کا شکتی کپور لگتا تھا۔
سوشل میڈیا پر اس شخص کی جدید اسلحے کے ساتھ لی گئی تصاویر گردش کر رہی ہیں جو اسکے کردار کا بخوبی اندازہ لگانے کیلئے کافی ہیں۔۔ یہ اور بات ہے کہ بھارتی چینلز اور این۔ڈی۔ایس کے کابلی بھیڑ اسے مزاح نگار ثابت کرنے پر تُلّے ہوئے ہیں۔۔۔
یہ شخص جسے آج سے پہلے شاہد ہی آپ نے کبھی دیکھا ہو کو راء اور این۔ڈی۔ایس سوشل میڈیا پر "مشہورِ زمانہ” بتاتے پھر رہے ہیں۔ یہ اتنا ہی مشہورِ زمانہ ہے کہ اسے مشہور کہنے والوں کے قریبی رشتےدار تک اسکے نام سے ناواقف ہیں۔ ویسے قارئین کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ موصوف نذر محمد الیاس خاشا زوان کے نام سے پکارے جا رہے ہیں۔
پاکستان کی پارلیمان میں براجمان انہی سرخوں کے ساتھی احباب بھی اسی لائن کو ٹریس کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر جھوٹ پھیلا رہے ہیں۔۔ محسن داوڑ نامی رکن قومی اسمبلی کے الفاظ میں:
ٹویٹ کا لنک: https://twitter.com/mjdawar/status/1420080452984000514
گویا کہ یہ بھی وہی سکرپٹ کاپی پیسٹ کر رہے ہیں جو کابل سے انہیں وٹس ایپ کیا گیا تھا۔۔۔ آج سے پہلے ہم نے کبھی محسن داوڑ کے منہ سے اس شخص کے بارے میں کچھ نہ سنا تھا لیکن اچانک محسن داوڑ کی جانب سے اس نام نہاد مزاح نگار کی شان میں قصیدے اور افغان طالبان کے امن مذاکرات سے متعلق قیاس آرائیاں جاری ہونا سمجھ سے بالاتر ہے۔۔
اگر آپ اس کی سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ یہ وہ برائی ہے جو قندھار میں طالبان کے ہاتھوں مار دی گئی ہے اور ہمارے کچھ جاہل لوگ ، جن میں مغربی ممالک بھی شامل ہیں ، اس پر آنسو بہا رہے ہیں۔
پہلے ، یہ ایک ازبکی تھا ، پھر وہ اس پوسٹ کی کمانڈ کررہا تھا ، عملی طور پر مسلمانوں کے خلاف لڑ رہا تھا۔ یہ ہمارے عظیم آقا کی توہین کرتا صاف نظر آ رہا تھا۔۔ یہی وجہ ہے کہ آدھی سے زیادہ افغان قوم اس مسخرے کو ناپسند کرتی تھی۔ ایک وڈیو میں صاف دیکھا جا سکتا تھا کہ یہ ٹی۔ٹی۔پی کے دہشتگرد کمانڈروں جیسی شخصیت کا مالک شخص تھا۔
میرا موقف نہایت صاف اور واضح ہے۔ سوال اس شخص کی معصومیت یا بے گناہی کا نہیں بلکہ اس پروپیگنڈے کا ہے جو اسکو اچھا بنانے کے لیے مسلسل کیا جا رہا ہے۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ ایسا کرنے کے پیچھے ہمارے رکن قومی اسمبلی جناب محسن داوڑ اور دیگر سرخوں کے پاس کیا وجوہات ہیں؟
@MrWaheedgul