پاکستان میں ہر بندہ مظلوم ہے اور سب سے زیادہ ہمارے سیاستدان مظلوم ہیں اور ان میں بھی سب سے زیادہ مظلوم ہیں ہمارے خان صاحب ۔۔۔ کیونکہ انہوں نے سیاست میں مظلومیت کے لگ بھگ 26 سال گزار دیے ہیں جن میں سے چار سال وہ پاکستان کے مظلوم وزیراعظم بھی رہے۔۔۔ وہ مظلوم کیوں ہیں اور وہ کن کے ظلم کا شکار رہے؟۔۔۔ یہ سوال جواب طلب ہے۔۔۔

لیکن پھر بھی اس کے لیے کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں بس جب جب انہوں نے کسی پر بھروسہ کرکے کوئی عہدہ دیا، کسی کو عوام سے عزت دلائی اور کسی کو اپنا ہمراز و ہمنوا بنایا اور ان سب کی جانب سے جب خان صاحب کی پیٹھ میں خنجر گھونپا گیا تب خان صاحب نے جو غم و غصے اور دکھ کا اظہار عوامی سطح پر کیا وہ بیانات ہی سن پڑھ لیں تو تشفی ہوجاتی ہے کہ جی بلکل خان صاحب ایک زیرک اور ذہیں مگر مظلوم سیاستدان ہیں۔۔۔

جیسے کہ چار سال ملک کے سیاہ و سفید کے مالک رہے اور آج جب خان صاحب حکومت میں نہیں اور انکی آڈیو لیکس باہر آرہی ہیں جن میں ملکی سیاست، سفارت اور بلخصوص دفاعی معاملات سے متعلق انتہائی سیکرٹ باتیں ہیں تو خان صاحب نے روایت برقرار رکھتے ہوئے بڑی خوبصورتی سے مظلومیت کارڈ نکال لیا ہے۔۔۔

چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کا کہنا ہے کہ” آڈیو لیکس کے ذریعے پاکستان کی قومی سلامتی کی رازداری کو عالمی سطح پربےنقاب کیا گیا ہے”۔۔۔آڈیو لیکس کے معاملے پر بات کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ ” بحیثیت وزیراعظم میرے فون کی محفوظ لائن بگ کی گئی، آڈیو لیکس قومی سلامتی کی سنگین خلاف ورزی ہیں”۔۔۔

اس کے علاوہ خان صاحب نے آڈیو لیکس کی صداقت جانچنے کے حوالے سے عدالت جانے کا جو عندیہ دیا تھا آج اس پر عمل کردیا ہے، آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن یا جے آئی ٹی بنانے کی استدعا کے ساتھ آج عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا ہے تاکہ مظلومیت کے رنگ پھیکے نہ پڑ جائیں۔۔۔ عمران خان کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم ہاؤس اور آفس کی نگرانی، ڈیٹا ریکارڈنگ اور آڈیو لیکس کو غیر قانونی قرار دیا جائے، آڈیو لیکس کی تحقیقات کروا کر ذمہ داروں کو سزا دی جائے۔۔۔ لیکن یہاں ہمارے پیارے خان صاحب نے مظلومیت کی انتہا کردی کہ نام نہیں لیا کہ کون ذمہ دار۔۔۔

جب یہ ملک کے وزیر اعظم تھے تب ان کو خبر تھی نا کہ جی آفس کی نگرانی اور ڈیٹا ریکارڈنگ وغیرہ وغیرہ ہوتی ہے اور وہ کون کرتے ہیں؟ تب ہی کیوں نا اس پر سخت یا ضروری اقدامات کیے کہ آج آڈیو لیکس کی خفت مٹانے کی ایسی کوششیں کرنی پڑ رہی ہیں؟
خان صاحب سے پہلے بھی وزرائے اعظم اور صدور رہے ہیں جن کے ادوار میں آفس کی نگرانی اور ڈیٹا ریکارڈنگ وغیرہ وغیرہ ان کی موجودگی اور رخصتی کے بعد معمول کی ہی کاروائی رہی ہے، کوئی لیکس یا سیکیوریٹی بریچ جیسا واقع اس طرح رونما نہیں ہوا جیسے خان صاحب کی دفعہ ہوا یا ہو رہا ہے حالانکہ پورے دور حکومت میں خان صاحب اور انکی پارٹی کی جانب سے ایک صفحے والی کہانیاں بھی سنائی جاتی رہیں۔۔۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ خان صاحب

خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں

کہ مصداق اسی طرح مظلومیت، الزام تراشی اور اداروں سے نادیدہ تصادم کی سیاست کرتے کرتے دوبارہ اقتدار کا راستہ سیدھا کرنے کی پالیسی پر گامزن ہوں؟

ایک طرف ملک میں سیاسی اور معاشی بحران کے کالے سائے لہرا رہے ہیں، دوسری جانب ملک کی مکسچر اور کمزور ترین حکومت مردہ گھوڑے میں روح پھونکنے کی سبیلیں کر رہی ہے جبکہ عالمی سطح پر نئی بساط بچھ رہی ہے اور تمام قوتیں اپنے مہرے سیٹ کر رہی ہیں اور پاکستان جیسا اہم ملک اس منظر نامے میں اپنی جگہ طے کرنے سے جزوی طور پر قاصر ہے۔۔۔ ملکی اور عالمی سطح پر حالات کیا رخ اختیار کریں گے

Shares: