مظلوموں کی پکار،عذاب الہی کی یلغار،کرونا وائرس کی برمار—از–ڈاکٹرماریہ نقاش

0
52

اگر ماضی کے دریچوں میں جھانک کر دیکھا جائے یا تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھے جائیں تو ماضی کے بھیانک چہرے سے کچھ خوفناک مناظر جھانکتے ہوئے آپکو نظر آئیں گے…جو آپکو خوفزدہ کر دینے کیلئیے کچھ کم نہیں ہیں..

جی ہاں قارئین!
میں بات کر رہی ہوں پچھلی قوموں پر آئے ہوئے مختلف عذاب اور انکے اسباب کی …تاریخ اپنا آپ دہرا رہی ہے…
چشم فلک یہ مناظر پہلے بھی دیکھ چکی ہے…

فضاء پہلے بھی موذی امراض سے آلودہ ہو چکی ہے…
یہ کائنات پہلے بھی موت کی ہچکیوں سے گونج چکی ہے….

یہ دھرتی پہلے بھی کئ ذی روح کو مہلک امراض کے ساتھ اپنے سینے میں دفن کر چکی ہے…
اس زمین پر پہلے بھی موت کی تکلیف سے ایڑیاں رگڑی جا چکی ہیں…
ہاں مگر اسباب اور وجوہات الگ الگ تھیں…

کہیں نافرمان قوموں پر اللہ کا عذاب آگ کے گولوں کی صورت میں برس چکا ہے…
اور کہیں آسمان سے برستے پتھروں کی صورت میں دیکھا گیا ہے….
کہیں پانی میں ڈوب کر پوری قوم غرق ہوتی پائ گئ ہے…

اور کہیں پہاڑوں میں دھنستے اور بندروں کی شکلیں اختیار کرتے لوگ سنے گئے ہیں…
کہیں ابابیل کے لشکر سے ہاتھیوں سمیت انسانوں کو خاک ہوتے قرآن میں پڑھا گیا ہے…
کبھی طاعون مرض سے ہلاک ہوتے لوگ دیکھے گئے ہیں….

تو قارئین کرام..! کبھی بھی عذاب بے سبب یا بے وجہ نہیں آئے…اجکل پوری دنیا جس عذاب میں گھر چکی ہے وہ کرونا وائرس ہے….جس سے تقریبن تمام ممالک ہی متاثر ہو چکے ہیں… ہر طرف ہنگامی صورتحال برپا ہے….احتیاطی تدابیر کی جا رہی ہیں….مگر سب سے اہم تدبیر تو شاید ہم بھول رہے ہیں…

قارئین یہ وقت ہے اپنے گناہوں کو پہچاننے کا …انکی روک تھام کا…اور توبہ کا..انفرادی و اجتماعی گناہوں کا ازالہ کرنے کا…یہ وقت ہے اپنے نفس پر غورو فکر کا….اور اپنے رب سے گڑگڑا کر معافی کا….جانے انجانے میں جو حق تلفیاں ہوئ ہیں ہم سے انہیں تسلیم کر کے….آئندہ نہ کرنے کا عہد باندھنے کا….

قومیں تب تک عذاب کا شکار نہیں ہوتیں….جب تک رب کی حدود تجاوز نہیں کرتیں….رب تعالی کے قہر کو آواز نہیں دیتیں…گناہوں اور نا فرمانیوں کا عروج نہیں کر دیتیں…
یہ بات صرف مذہب اسلام میں ہی نہیں ہر مذہب میں جانی اور مانی جاتی ہے…ہر مذہب کے لوگ اپنے God کو اپنے طریقے سے منا رہے ہیں…لکین معافی کس بات پر مانگی جا رہی ہے….آیا کہ یہ غلطی وہی ہے…جسکے باعث اللہ تعالی کا عذاب نازل ہوا..?

آیا کہ ہم نے وہ غلطیاں ترک کیں جس کی وجہ سے رب ناراض ہوا…? یہ کیسے پتا چلے گا…یا ہم کیسے جان پائیں گے…?
تو اسکا ایک آسان کلیہ میں قارئین کو بتاتی چلوں…انفرادی لحاظ سے ہمارے گناہ کونسے ہیں…وہ ہم سب خود کو بہتر جانتے اور پہچانتے ہیں…ان سے توبہ کرنے کے بعد اجتماعی گناہوں کو پہچاننا اور اس سے توبہ کرنا اور ان گناہون کو دوبارہ نہ دہرانا …ان سے باز رہنا…بہت ضروری ہے… اس کیلئے ہمیں غور کرنا ہے کہ کہیں یہ انسانیت پر برپا ہونے والا ظلم تو نہیں….? جو نہ صوف مسلمانون پر ہے بلکہ کہیں نا کہیں کسی نہ کسی طبقے میں کسی نہ کسی صورت میں کسی صاحب حیثیت اونچی ذات والے شخص کے ہاتھوں مظلوموں اور غریبوں پر ہوتا ہی چلا آ رہا ہے…?

یہ تحریر صرف مسلمانوں کیلئے ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر ہے…لہذا پہلے میں مخاطب ہوں ان لوگوں سے جو اینیملز رائٹس کی بات کرتے ہیں…جو خلا میں بلی کے بھیجے جانے پر چیخ اٹھتے ہیں….اگر انسانیت سے زیادہ قدریں جانوروں کو حاصل ہیں…تو چین میں ہونے والے جانوروں پر مظالم کے ویڈیو کلپس تو آپ نے بھی دیکھیں ہونگے…زندہ جانوروں کو پکنے کیلیئے آگ پر رکھ دینا گھی میں فرائی کر دینا…

جانوروں کے سروں پر ڈنڈوں سے وار کر کے انہیں ہلاک کر کے کھانا کیا یہ ظلمیت کا منہ بولتا ثبوت نہیں…شاید یہی وجہ ہے زندہ چوہوں کو کھولتے پانی میں ابال کر جلد اتار کے ڈشوں میں پکا کر کھانے والے لوگوں پر چوہوں سے ہی پیدا ہونے والا اک وائرس حملہ آور ہو چکا ہے…جسکی شرح اموات بنسبت چوہوں کے 23% زیادہ ہے…چلیں جانوروں سے ہٹ کر اب ہم عالمی سطح پر ہونے والے انسانی ظلم کی بات کرتے ہیں…
کہیں جنگلوں میں آدم خور قبیلے کا انسانوں کو ذبح کر کے کھانے جیسا ظلم دیکھنے اور سننے میں آیا ہے…

اور کہیں زندہ انسانوں کے اعضاء نکال کر ہسپتالوں میں بیچنے کے کیسز سامنے آئے ہیں…
اور اس سے بھی بڑی درندگی کی مثال کہاں ملے گی کہ انسانوں کا پیٹ چاک کر کے اس میں نشہ آور اشیاء اسمگل کی جا رہی ہیں…
یہ تو چند مثالیں تھیں عالمی سطح پر قوم و مذہب کا امتیاز کئیے بغیر انسانیت پر برپا ہونے والے مظالم کا عکس…

اب بحیثیت مسلم میں بات کروں گی انسانیت کے سب سے گھنائونے ناسوز اور دلگیر دہشت کے نشان… ظلم وستم کے اس پہلو کی کہ جس کے چند مناظر بڑے بڑے دل گردوں والوں کو بھی ایک بار مفلوج کر کے رکھ دیتے ہیں …
لیکن وہ کیسے درندے ہیں کیسے حیوان صفت انسان ہیں جنہیں یہ ظلم ڈھاتے ہوئے سسکتے بلکتے انسانیت کے اس کمزور لاچار وجود پر رحم نہیں آتا جو نہ تو اپنے دفاع کی حالت میں ہیں اور نہ تو اس قابل کہ آگے سے صدائے رحم بلند کر سکیں….

جب پتھر پر گردن رکھ کے اوپر سے پتھر مار مار کر مسلمان ہلاک کئیے جائیں گے تو کیا کرونا نہیں آئے گا?
جب سوئے مار مار کر اعضاء جسم سے الگ اور چھلنی کئیے جائیں گے اور یہ عمل موت کے بعد بھی جاری رہے گا تو کیا عذاب الہی نہیں آئے گا…
جب حاملہ خواتین کو پیٹ میں برچھے مار کر بچہ باہر گرا دیا جائے گا تو..کیا قہر الہی نہیں برسے گا?

جب ماں کا (ہائے میرا بچہ) پکارنے پر بچے کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے ماں کو کھلایا جائے تو خداوند تعالی ناراض نہیں ہونگے?
خب بھارتی درندے کتوں کی طرح سونگھتے پھر رہے ہوں تو کشمیری مائیں بچوں کی آواز سے گھبرا کر خود اپنے ہی بچوں کا گلہ گھونٹ کر قتل کر کے انہیں آسان موت دے دیں تو کیا وائرس جیسی وباء نہیں آئے گی?

جب کشمیری لڑکیون کے چہرہ انور اور پاکیزہ بدن کہ (جنکو چشم فلک نے بھی جی بھر کر نہ دیکھا ہو) سر بازار برہنہ کئیے جائیں تو کیا یہ مہلک امراض جنم نہیں لیں گے….?
جب باپ کاکندھا کاٹ کر بیٹے کے ہاتھ میں پکڑایا جائے…اور بیٹے کی ٹانگ کاٹ کر باپ کے ہاتھ میں تھمائی جائے تو یہ کائنات کیا زلزلے سے لرزے گی نہیں?

جب جلتی آگ میں انسان جلائے جائیں…اور زندہ انسانوں کی کھالیں اتاری جائیں…تو کیا دنیا بھر میں عذاب کے باعث ہلاکتیں نہیں ہونگی?
آج جب ماں کرونا سے متاثر بچے کو اپنی ممتا سے دور آئسو لیشن میں دیکھتی ہو گی تو اسے کشمیری ماں یاد تو آتی ہو گی…

آج جب اس وباء سے ایک باپ اپنے بیٹے کو مرتا ہوا موت کی ہچکیاں لیتے ہوئے دیکھتا ہے تو…اسے کشمیری باپ یاد تو آتے ہونگے…
آج جب جوان بیٹا بوڑھے باپ کی لاش دیکھتا ہے اور وائرس سے متاثر ہونے پر اس لاش سے کئیے جانے والا برتائو اسکا دل چھلنی کرتا ہے تو اسے کشمیری جوانوں کی صدائیں تو سنائی دیتی ہونگی…

آج اپنے پیاروں کو اس حال میں دیکھ کر انسانی جان کی قدر اگر تمہیں معلوم ہو گئ ہے تو…لازم ہے کہ ان جانوں کا تصور بھی روز آتا ہو گا جو کشمیر میں ایک ہی دن میں ایک ہی وقت میں ایک ہی گھر میں ضائع کی جاتی ہیں….
اگر عالمی سطح پر انسانیت میں رحم اور کشمیریوں کا شعور اب بھی بیدار نہ ہوا تو پھر کرونا جیسے مرض سے بڑھ کر عذاب الہی برسے گا…

جب انسانی بصارت دیکھنے اور انسانی سماعت سننے سے قاصر ہو جائے تو یاد رکھو اوپر عرشوں کا مالک آسمانوں کے اوپر سے سب دیکھ رہا ہے…وہ کائنات کے کسی بھی گوشے میں ہونے والی سرسراہٹ کو سن بھی رہا ہے….
اور چیونٹی جیسی چھوٹی مخلوق کی ہر حرکت کو دیکھ بھی رہا ہے…اور پھر رب تعالی تو بہتر حکمت والا اوف بہتر سبب بنانے والا ہے…
لمحہ فکریہ تو یہ ہے کہ 70 مائوں سے زیادہ پیار کرنے والا رب اس قدر ناراض ہے تو ہمارے گناہوں اور بے حسی کا کیا عالم ہو گا….

80 لاکھ کشمیریوں پر دن رات ہونے والے مظالم اور اموات کو نظر انداز کر کے 165 ممالک میں 7987 ہلاکتوں پر اظہار فکر کریں گے تو…پھر جان لو کہ مظلوم کی آہ تو عرش سے ٹکراتی ہی ہے…
80 لاکھ کشمیریوں کے بالمقابل 1 لاکھ 98 ہزار 4 سو بائیس کرونا سے متاثر افراد دریافت کر کے انہیں طبی نگہداشت دینا اور حکومت کی طرف سے ضرورت مندوں میں راشن پیکج تقسیم کییے جانا …اور اسکے برعکس کشمیریوں کی بھوک پیاس اور بیماری کو مسلسل نظر انداز کیا جائے گا تو عذاب الہی تو آئے گا نا…

جب قرآن کہ رہا ہو کہ تم مسلمانوں کو ظلم کی چکی میں پستے دیکھو تو تم پر جہاد واجب اور فرض ہے…ایسے وقت میں جہادی تنظیمیں بند کر دی جائیں… مجاہدین کو قید کر دیا جائے…. اور جہاد روک دیا جائے…تو رب تعالی پھر اپنی مخلوق سے جنگ تو کریں گے نا…

جب سپر پاور ممالک آسمانوں کے مالک کے کاموں میں….. اس کے طے کردہ امور میں دخل اندازی کریں گے تو پھر جہانوں کا مالک ناراض ہو کر اس سپر پاور کو ایک نہ نظر آنے والی چھوٹی مخلوق کے ہاتھوں بے بس کر کے تباہی کے دوہانے پر لا کھڑا کرے گا نہ….انکا غرور خاک تو کرے گا نہ…

جب مظلوم کشمیریوں کی التجائیں عرش بریں سے جا ٹکرائیں گی تو رحمن اور رحیم کو رحم تو آئے گا نہ وہ بے رحم کائنات کو کرونا جیسے عذاب سے جھنجھوڑے گا تو سہی نہ?
تو قارئین اس وقت میں آپ اور ہم سب اس نازک مراحل میں داخل ہو چکے ہیں کہ جسکا اگلا مرحلہ موت بھی ہو سکتی ہے… لہذا توبہ کا دروازہ اب بھی کھلا ہے…وقت اب بھی باقی ہے…دیکھنا یہ ہے کہ ہم میں وہ کامیاب لوگ کون ہیں جو انفرادی اور اجتماعی استغفار کر کےآئندہ ان گناہوں کو نہ دہرانے کا عہد کر کے اپنے رب کی عطا کردہ مغفرت کے مستحق بن کر موت کو اپنے دروازے سے ناکام لوٹا سکتے ہیں…

مظلوموں کی پکار
عذاب الہی کی یلغار
کرونا وائرس کی برمار

✍بقلم
ڈاکٹر ماریہ نقاش

Leave a reply