اس دنیا میں سب سے زیادہ تکلیف دہ چیز دنیا کا مہتاج ہونا ہے جو کہ زندگی کی تمام مشکلات اور پریشانیوں سے اذیت ناک ہوتا ہے،
کیا آپ نے کبھی یہ سوچا ہے کہ معذور افراد کی زندگی میں کیا مشکلات ہوتی ہیں اور وہ کیسے زندگی بسر کرتے ہیں اور پیدائش سے لے کر بڑھاپے تک یہ معاشرہ کیسا سلوک کرتا ہے؟
کہتے ہیں کہ مرنے والے سے سب سے بڑی وفا یہ ہوتی ہے کہ وہ اس کے آخری رسومات میں شرکت کرے اور اپنی اپنائیت اپنی محبت کا یقین دلائے لیکن یہ سب چاہتے ہوئے بھی ایک معزور افراد نہیں کر سکتا کیونکہ وہ دنیا کا مہتاج ہوتا ہے اور اس وقت ہمارے قریبی رشتے دار کہتے ہیں اپ کا کیا کام بہت رش ہے آپ گھر بیٹھیں اور صرف اپنوں کی وافات کے موقع پر ہی نہیں بلکہ شادی بیاہ اور دیگر روز مرہ کے معمولاتِ زندگی اور تقریبات میں شرکت بھی نہیں کرنے دیتے
آج پوری دنیا میں کورونا کی وجہ سے کچھ حالات بدلے اور چند دن حکومت نے لاک ڈاؤن لگایا تو محسوس ہوا کہ کیسے سارا سال گزرتا ہے ان لوگوں کا جو بیچارے گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں کیا ان کا دل نہیں کرتا کے انکے ساتھ بھی کوئی وقت گزارے کیا ان کا دل نہیں کرتا کہ وہ بھی باہر کی دنیا دیکھیں
جب پیدائشی یا چھوٹی عمر میں انسان کسی طرح کی بھی معذوری میں مبتلا ہوجاتا ہے تو سب سے اہم چیز اسکی پڑھائی ہوتی ہے جس سے وہ محروم رہتا ہے 100 میں سب صرف 05% افراد ہی تعلیم حاصل کرتے ہیں،
جو خود سے پانی تک نہیں پی سکتے کھانا تک نہیں کھا سکتے انہیں پاکستانی تعلیمی ادارے نے کیا سہولیات مہیا کی ہیں ہمارے ہاں تو ان کا حق بھی نہیں دیا جاتا،
اگر ہم اپنا موازنہ یورپ سے کریں تو وہاں آپ جا کر دیکھیں کہ کیسے انہوں نے اپنے معذور افراد کے لیے اقدامات کیے ہیں
کیسے انہوں نے اپنے معذور افراد کو سپیشل پرسن بنایا اور ایک نارمل انسان سے کہیں بہتر اقدامات کیے تاکہ وہ معذوری کو مجبوری نہ بنائیں اور اچھے طریقے سے زندگی گزاریں یقیناً اس کا واحد حل صرف اور صرف تعلیم یافتہ ہونا ہے،
ہمیں ہرصورت ان لوگوں کے لیے آواز بلند کرنی پڑے گی جو بیچارے نا تو احتجاج کر سکتے ہیں نہ کوئی انکی سننے والا ہوتا ہے واحد اللہ ہی انکا سہارا ہے ہم لوگ صرف اپنی حکومت کو کہتے ہیں کہ وہ کوئی اقدام اٹھائے کیا آپ لوگوں نے کبھی سوچا ہے کہ آپ نے کیا کیا ہے جتنا آپ کر سکتے ہیں کم ازکم وہ تو کریں اور کچھ نہیں کرسکتے تو انکے ساتھ وقت تو گزار سکتے ہیں،
اور یقین جانئے یہ دنیا کی سب سے بڑی خوشیوں میں سی ایک ہے کہ آپ کیسی کو اپنا وقت دیتے ہیں اور جہاں تک بات ہے وہیل چیئر کی تو وہیل چیئر معذور افراد کی آدھی زندگی ہے،
اگر ہماری حکومتوں نے معذور افراد کو بھی اپنا شہری مانا ہوتا بروقت اقدامات کیے ہوتے معذور افراد تک مفت وہیل چیئر پہنچائی ہوتی معذوری سرٹیفکیٹ بنوانے کا آسان طریقہ رکھا ہوتا اور سپیشل پرسن والے کارڈ بنا کر انہیں ماہانہ کی بنیاد پر وظیفہ مقرر کیا ہوتا تو آج معذور افراد آپ کو یوں سڑکوں پر بھیک مانگتے نظر نہ آتے، اور مخیر حضرات آگر حق حقداروں تک حق پہنچاتے تو یہ دن نہیں دیکھنا پڑتا ان لوگوں کی وجہ سے ہم جیسے لوگ بھیک مانگنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، دوسروں کو الزام دینے کے بجائے آپ خود کو دیکھیں آپ نے کیا کیا ہے آگر ہر بندہ اپنی ذمےداری نبھائے تو معذور افراد کی زندگی بہتر اور بہت خوبصورت بننے کے ساتھ ساتھ گزر بھی جائے گی اور وہی اسی طرح دوسروں کی خدمت کریں گے دوسروں کیلئے جدوجہد کریں گے دوسروں کے حقوق کی جنگ لڑیں گے دوسرے معذور افراد کو اپنایت کا احساس دلائیں گے ان کیلئے سہارا بنے گے،
پاکستان کی حکومت پاکستان کے ادارے پاکستان کے ٹرسٹ پاکستان کے مخیر حضرات اس اہم ایشو کو اپنے اہم ایشو میں شامل کریں تاکہ پاکستان کے لاکھوں معذور افراد اس پریشانی سے ان محرومیوں سے نکل سکیں اور اپنی صلاحیت پاکستان کیلئے پاکستان کے غریبوں مزدوروں اور معذوروں کیلئے استعمال کریں،
اس دعا کے ساتھ اور اس امید کے ساتھ اختتام کررہا ہوں یقیناً صاحب اقتدار اور صاحبِ استطاعت ہماری مودبانہ گزارش کا نوٹس لیتے ہوئے تمام تر اقدامات بروئے کار لائیں گے،
اللہ پاک آپ سب کا حامی و ناصر ہو پاکستان ذندہ باد
Twitter ID
👇
https://twitter.com/ahmad_faredii?s=09

Shares: