میڈیا سے اجتناب کرنا

0
49
Media


ہمارے اردگرد بہت شورشرابہ ہے۔ ٹی وی، یو ٹیوب چینلز، متعدد سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، اور تو اور، تمام نسلوں کو میسجنگ کا نشہ ڈالنے والا موبائل فون، کثیر جہتی موضوعات پر واٹس ایپ گروپس – چوبیسس گھنٹے توجہ لیتے ہیں۔

نوجوان نسل خاص طور پر، حقیقی زندگی میں دوستوں سے میل کے بجائے ورچوئل دوستوں، اور آن لائن تعلقات پر زیادہ انحصار کرتی ہے۔ اوپر سے سوشل میڈیا کی ستم ظریفی کہ جہاں اس کا مقصد لوگوں کو اکٹھا کرنا ہے، وہیں یہ افراد اور ان کے ماحول کے درمیان ایک اہم خلا بھی پیدا کر سکتا ہے۔ یہ عجب ستم ظریفی ہے۔ سوشل میڈیا لوگوں کو جوڑتا ہے لیکن دوسری طرف یہ صارفین کی حقیقی زندگی میں لوگوں کے ساتھ تعلق کے درمیان حائل ہوتا ہے۔

ان کو FOMO کاخطرہ لاحق ہوجاتا ہے، یعنی ایسے احساس کہ ان کے بغیر کچھ ہو نہ جائے۔ ان کو ایسا لگتا ہے کہ وہ ماحول کے”اندر” نہیں ہیں اور پارٹیوں میں مدعو نہیں کیے جا رہے ہیں اور انہیں پیچھے چھوڑ دیا گیا ہے۔ ایک کمرے میں بیٹھا خاندان اکثر اپنے آپ کو اپنے موبائل میں مشغول اور ایک دوسرے کے ساتھ کم ہی پائے گا۔

مزید برآں، سوشل میڈیا کی لت اکثر صحت مند سرگرمیوں سے غفلت کا باعث بنتی ہے. مثلاً کھیل، ورزش، اور باہر وقت گزارنے سے۔ اس کاہلی والے طرز زندگی کے نتیجے میں صحت کے مختلف مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔

ایک دوست نے مجھے ایک اقتباس بھیجا، مصنف نامعلوم، "آج سٹاربکس میں ایک آدمی کو دیکھا۔ نہ آئی فون، نہ ٹیبلیٹ، نہ لیپ ٹاپ۔ وہ بس وہیں بیٹھا تھا۔ کافی پی رہا تھا۔ بلکل جیسے کوئی نفسیاتی مریض ہو۔” اس بات نے مجھے سنجیدگی سے سوچنے پر مجبور کیا۔ کیا ہم نے سادہ خوشیوں کی لذت نہیں کھو دی؟ گھر والوں کا ایک ساتھ ناشتہ کرنا؟

خط لکھنے اور وصول کرنے کی خوشی؟ پوسٹ کارڈز؟ اپنے بزرگوں کے ساتھ بیٹھ کر ان کی زندگی کے قصے کہانیاں سننا؟ ہماری یادداشت میں ہمیشہ کے لیے رہنے والی تصویر کی خواہش،بزرگوں سے عیدی ملنے کی خوشی، زیادہ بڑی رقم نہیں بلکہ وہ رقم جو احساس کے اعتبار سے معنی خیز تھی؟ تمام خاندان کا ایک گھر میں کھانے پر آنا؟ بچوں، نوجوانوں، اور بزرگوں سے بھرے ہوۓ کمرے؟ عید کی روایتی سوغات۔ چاندی کے ورق والی میٹھی سویاں، حلوے کے میٹھے ٹکڑے، کھٹی اور مسالے دار چاٹ، مختلف اقسام کے سموسے، کباب، شیرمال اور نان کے ساتھ نہاری، شیرہ ٹپکتی ہوئی گھریلو گلابی جامن۔
مزید یہ بھی پڑھیں؛
کبری خان اور میں شادی نہیں کررہے گوہر رشید
فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف درخواستیں سماعت کیلئے مقرر
علی امین گنڈاپور کے گھر کی بجلی واجبات کی عدم ادائیگی پر کاٹ دی گئی
ڈالر کے مقابلہ میں روپے کی قدر میں مزید بہتری
شہر یار آفریدی کی ہمشیرہ انتقال کر گئیں
غم کے مواقع پر، مثلاً موت، یا بیماری کے وقت، متاثرہ گھر والوں کو خاندان کے دیگر افراد نے ایسے جیسے گھیر لیا ہو، کوئی کھانا لے کر آرہا ہو گا، یا ہسپتال میں مریض کے ساتھ رہنے آیا ہو گا، یا صرف سہارا دینے کے لیے وہاں موجود ہو گا۔

مشکل اوقات میں برادری اور تعلق کا یہ احساس بتدریج ختم ہوتا جا رہا ہے. کیونکہ خاندان علیحدہ ہوتے جارہے ہیں اور لوگ ورچوئل دنیا میں مجذوب ہوتے جارہے ہیں۔

Leave a reply