ایک صاحب کی چند برس پہلے سوال جواب کی نشست تھی ، خاتون نے سوال پوچھا کہ کیا مسلمان عورت کسی غیر مسلم سے شادی کر سکتی ہے ۔۔۔۔۔ تو آسان سا جواب تھا کہ جو شریعت محمد رسول اللہ پر نازل ہوئی ہے اس میں کوئی گنجائش نہیں۔۔۔۔ لیکن ایسے جواب سے موصوف مفتی کی روشن خیالی متاثر ہوتی تھی سو انہوں نے اس خاتون کو میٹھا زہر کھلا دیا ۔
ان کا جواب یہ تھا کہ شریعت نے شرک سے شادی کو حرام قرار دیا ہے ۔ بظاہر یہ بڑا اچھا جواب ہے اور بہت سے لوگ لوگ اس جواب کے اندر چھپا زہر کھا جائیں اور ان کو معلوم بھی نہ ہو کہ انہوں نے کیا کھایا ہے ۔
اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ اس میں زہر کیا ہے ۔ زہر اس میں یہ ہے کہ ایک ایسا شخص جو کہے کہ
"وہ اللہ کے سوا سوا کسی کو خالق مانتا ہے نہ اس کے سوا کسی کی عبادت کو درست سمجھتا ہے ، لیکن (محمد) کو نبی نہیں مانتا , نہ وہ اللہ کے پیغمبر تھے اور نہ ہی وہ سچے تھے ”
تو اوپر بیان کردہ اصول کے تحت ایسے شخص سے بھی مسلمان عورت شادی کر سکتی ہے ، کیونکہ یہ شخص مشرک نہیں ہے یا اس دعویٰ واحدانیت پر ایمان کا ہے۔۔۔۔
یاد رہے کہ وہ سوال کرنے والی خاتون یورپ کے کسی ملک کی مقیم تھی اور اس نے اس سوال کا پس منظر بھی بتایا تھا ۔ اور اس جواب کے تحت خاتون کے لئے راستہ کافی آسان ہوگیا تھا ۔ یہ ہوتا ہے کہ سوال کرنے والے کے اشارہ ابرو کو دیکھ کر ایسا جواب دے دیا جائے کہ جس سے سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے ۔
جبکہ دین نے اسلام عوام ایسی مداہنت کا ہرگز قائل نہیں نہیں ، وہ صاف سیدھی بات کرتا ہے اور سیدھی بات کرنے کا حکم دیتا ہے ۔
اسلام رویے میں نرمی کا قائل ہے نہ کہ لوگوں کے چہرے دیکھ کر اصولوں کو نرم کر لینے کا نام۔۔۔