سندھ کےضلع تھرپارکر میں موروں کی پراسرار بیماری سے ہلاکتوں کا سلسلہ نہ تھما، مزید 12 مور جان کی بازی ہار گئے، جس کے بعد صرف تین ماہ میں ہلاک ہونے والے موروں کی تعداد 112 تک پہنچ گئی ہے۔
باغی ٹی وی کے مطابق مقامی سطح پر موجود محکمہ وائلڈ لائف اور محکمہ پولٹری پراڈکٹ کی جانب سے تاحال کوئی مؤثر اقدام سامنے نہیں آ سکا۔ دونوں محکموں کی جانب سے موروں کے تحفظ اور بیماری کی تشخیص کے لیے ایک بھی فیلڈ کیمپ قائم نہیں کیا جا سکا۔صورتحال نہ صرف تشویشناک ہے بلکہ متعلقہ سرکاری اداروں کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان ہے۔دوسری جانب مقامی افراد نے بیمار موروں کو خود وائلڈ لائف کے دفاتر پہنچانا شروع کر دیا ہے، جہاں فی الحال 12 مور زیر علاج ہیں۔
ڈپٹی ڈائریکٹر محکمہ وائلڈ لائف میر اعجاز تالپر کا کہنا ہے کہ پورے ضلع کے لیے ہمارے پاس محض پانچ سے چھ افراد پر مشتمل عملہ ہے، جبکہ وسائل کی بھی شدید کمی ہے۔ڈاکٹر سوائی مالہی ڈپٹی ڈائریکٹر محکمہ پولٹری پراڈکٹ نے بھی اعتراف کیا کہ ان کے پاس فیلڈ کیمپس لگانے کے لیے نہ وسائل ہیں اور نہ ہی عملہ موجود ہے۔ہم مختلف گاؤں میں ایک ہی سرکاری گاڑی کے ذریعے جاتے ہیں، جبکہ پرندوں کے ٹیسٹ کے سیمپلز لیبارٹریز کو بھیجے جاتے ہیں، لیکن اس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلتا۔
واضح رہے کہ تھرپارکر میں مور صرف ایک پرندہ ہی نہیں بلکہ اس علاقے کی پہچان اور خوبصورتی کا نشان ہیں جبکہ سندھ کا قومی پرندہ بھی ہے۔ ان کی مسلسل ہلاکت نہ صرف ماحولیاتی توازن کے لیے خطرہ ہے بلکہ مقامی ثقافت کے لیے بھی ایک بڑا نقصان تصور کیا جا رہا ہے۔