1921 میں ، جیٹھانند مکھی نے حیدرآباد میں مکھی ہاؤس (مکھی بیٹی کا نام تھا) تعمیر کیا۔ اس وقت اسے سونے کے حقیقی پانی سے پینٹ کیا گیا تھا۔ 2008 میں ، مکھی خاندان کی اولادوں نے مکھی ہاؤس کے مستقبل کے دعوؤں کو اس شرط پر چھوڑ دیا کہ اسے محفوظ کرکے میوزیم میں تبدیل کردیا جائے۔

باغی ٹی وی : اس تحفظ کی سربراہی ڈاکٹر کلیم لاشاری نے سندھ کے محکمہ نوادرات سے کی تھی ، جس کا سن 2014 میں میوزیم کے منصوبے کا افتتاح کیا گیا تھا۔ بڑے گھر میں سندھی ہندوؤں کا وہ متمول حصہ دکھاتا ہے جس کی تعلیم سے لے کر معاشرتی بہبود تک ہر شعبے میں نمایاں رہی ہے تقسیم ہند کے دوران کنبے کو چھوڑنا پڑا۔

اب ایک صدی ہونے کو آئی ہے۔ یہ گھر آج بھی نظر رکھنے والی آنکھوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے، اور دیکھنے والے کو مسحور کر دیتا ہے۔ یہ گھر حیدرآباد میں ہوم اسٹیڈ ہال کے سامنے مکھی ہاؤس کے نام سے مشہور ہے جسے ‘مکھی محل’ بھی کہتے ہیں۔

یہ عمارت 1921 میں اس وقت کی مشہور شخصیت جیٹھانند مکھی نے اپنی خواہش کے مطابق تعمیر کروائی تھی، جسے انہوں نے گھر کا نہیں بلکہ مکھی محل کا نام دیا تھا، اور یہ واقعی ایک محل سے کم نہیں ہے۔ جیٹھانند مکھی اس زمانے میں حیدرآباد کی شہری انتطامیہ کے سربراہ تھے۔ شہر کے کافی انتظامی معاملات ان کے سپرد تھے۔ اسی مکھی ہاؤس سے تھوڑے سے فاصلے پر مکھی باغ بھی تھا مگر اب اس باغ کے کوئی بھی آثار دکھائی نہیں دیتے، جہاں پر اب گنجان آبادی ہے۔ اس شاہکار گھر کی تعمیر کے سات برس بعد جیٹھانند مکھی 1927 میں انتقال کر گئے۔

برصغیر کی تقیسم کے بعد جو ہجرت کا سلسلہ شروع ہوا وہ سالہا سال تک جاری رہا۔ شاید ان گھروں کے در و دیوار کو کبھی یہ اندازہ نہیں رہا ہو گا کہ وہ تنہا رہ جائیں گے اور ان گھروں کی کہانیاں صرف ہم لوگوں سے زبانی ہی سنتے رہیں گے، لیکن مکھی خاندان پاکستان بننے کے بعد بھی اسی شہر اور گھر میں مقیم تھا۔

1957 کو انہیں اس شہر کو چھوڑ کر جانا پڑا۔ جیٹھانند مکھی کی وفات کے بعد ان کی بیوہ اور دو بیٹے یہاں پر رہ رہے تھے، مگر انہیں یہ کہا گیا تھا کہ اگر وہ یہاں مزید رہے تو ان پر حملہ ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ انہیں اس محل نما گھر کو خیرباد کہنا پڑا اور یہ خاندان ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہندوستان چلا گیا۔

یہاں پر کسی زمانے میں ہندوستانی سفارت خانہ بھی قائم کیا گیا تھا۔ اس کے بعد یہ ایف سی کا ہیڈ کوارٹر بھی رہا، جبکہ اسے کے نچلے حصے کو اسکول میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔

حیدرآباد کے شہر نے اس وقت اپنا سکون کھو دیا جب 1988 میں یہاں لسانی فسادات ہوئے تھے۔ انہی دنوں مکھی ہاؤس کو نذر آتش کر دیا گیا تھا۔ گھر کے دروازے، کھڑکیاں اور کمروں میں رکھا فرنیچر جل کر خاک ہو گئے تھے مگر اس کے باوجود بھی آج مکھی ہاؤس سلامت ہے۔

2009 میں سندھ حکومت کے محکمہء آثارِ قدیمہ نے اس گھر کو سنبھالنے کا فیصلہ کیا، جس کے بعد 2013 میں مکھی خاندان نے اپنے قدیم گھر کا دورہ کیا اور اسے سندھ حکومت کے حوالے کرنے کے بعد میوزیم میں تبدیل کرنے کی اجازت دی گئی، چنانچہ اب اسے ایک میوزیم میں تبدیل کیا گیا ہے۔

مکھی ہاؤس ایک دو منزلہ عمارت ہے، جس میں 12 کمرے اور دو بڑے ہال ہیں۔ نذر آتش ہو جانے کے بعد دیواروں پر کیے گئے نقش و نگار بھی مٹ گئے تھے مگر چند بچ جانے والے نقوش کو دیکھ کر دیواروں اور چھت پر اسی قسم کے نقش و نگار بنائے گئے ہیں، تاکہ اس کی قدامت برقرار رہے۔

موٹی دیواروں میں کافی کھڑکیاں اور دروازے بنائے گئے ہیں، جن میں شیشم اور ساگوان کی لکڑی کا استعمال کیا گیا ہے۔ ہر کمرے کی دیوار میں الماریاں نصب کی گئی ہیں، روشندان بنائے گئے ہیں۔ اس دور میں جو فن تعمیر کے رجحانات تھے، انہیں برقرار رکھتے ہوئے گھر کو بنایا گیا ہے۔ مگر اس گھر کی خاص بات یہ کہ اس کا ایک مرکزی گنبد بھی ہے جو اسے تمام عمارات سے ممتاز بناتا ہے، اور اسے دور سے دیکھا جا سکتا ہے۔ کشادہ کمرے اور رہداریاں بھی گھر کی زینت میں اضافہ کرتے ہیں۔ عمارت کی تعمیر میں اینٹ کے بجائے بلاکس کا استعمال کیا گیا ہے-

اس گھر میں ان لوگوں کی یادیں بسی ہیں جن میں سے کافی اب اس دنیا میں نہیں رہے، مگر یہ گھر ایک ایسا تاریخی ورثہ بن چکا ہے جس کی حفاظت نہ صرف شہریوں پر بلکہ حکومت پر بھی لازم ہے تاکہ یہ دوبارہ کسی زوال کا شکار نہ ہو، کیونکہ اس طرح کی عمارات اب حیدرآباد میں نایاب ہوتی جا رہی ہیں۔

 

پاکستان کے تاریخی شہر لاہور پر مر مٹنے والی شہزادی بامبا سدھر لینڈ
Shares: