محمودہ غازیہ پاکستان کی ایک معروف شاعرہ اور ادیبہ

جو راس آئی اسے مسند شہی تو سنو
شکستہ چوڑیاں اب رزم گاہ میں رکھنا

محمودہ غازیہ

تاریخ پیدائش: 01 جنوری 1953ء
جائے پیدائش:راولپنڈی
سکونت : اسلام آباد
زبان:اردو، پنجابی
اصناف:شاعری، افسانہ
تصنیفات
۔۔۔۔۔۔۔
۔ (1)خیابان
۔ (2)اعتبار کیوں نہیں کرتے
۔ (3)ورق ورق غزل
۔ (4)اکائی کی موت
۔ (5)اندھے شیشے
مستقل پتا:بلاک ڈی، مکان نمبر653 ،سٹیلائٹ ٹائون، راولپنڈی

محمودہ غازیہ پاکستان کی ایک معروف شاعرہ اور ادیبہ ہیں۔ پاکستان آرٹس کونسل کی ڈائریکٹر رہ چکی ہیں اور فاطمہ جناح کالج برائے خواتین میں پڑھاتی تھیں۔ ان کے چار شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں:’’اکائی کی موت‘‘، ’’ورق ورق غزل‘‘ ، ’’اعتبار کیوں نہیں کرتے‘‘، ’’نیندکی ڈور ٹوٹ گئی‘‘ اور ’’بے سر کا گوتم‘‘ ان کے افسانوں کا مجموعہ ہے۔

غزل
۔۔۔۔۔۔
تم اس سے دوری بھی مت خواہ مخواہ میں رکھنا
بس احتیاط سی اک رسم و راہ میں رکھنا

تم اپنے رنگ نہاؤ تم اپنی موج اڑاو
مگر ہماری وفا بھی نگاہ میں رکھنا

قبول گر نہ کرے وہ تو کیا ہمیں سر شام
گلاب محفل ظل الہٰ میں رکھنا

جو راس آئی اسے مسند شہی تو سنو
شکستہ چوڑیاں اب رزم گاہ میں رکھنا

بڑا عذاب ہے محمودہ غازیہؔ ہجرت
مرے خدا مجھے اپنی پناہ میں رکھنا

نظم
۔۔۔۔۔۔
بے طلب
۔۔۔۔۔۔
میں خواہشوں سے اپنا ہاتھ نہیں کھینچ سکتی
جب تک خواہشیں مجھ سے نہ کھینچ جائیں
یہ کافی ہے اور میرے لیے سب
میری گردن پر میرے محبوب کا چہرہ سجا دو
یا میری روح کو آزاد ہو جانے دو
یہ بھی کافی ہے اور میرے لیے بہت ہے
میں اس کی خواہش سے کچھ کم ہوں یا ذرا زیادہ
ظاہر ہے گرد مجھے چھپا لیتی ہے
میری روح میرے ہونٹوں پر ہے
اڑنے کے لیے بے تاب
کیا اس کے ہونٹ مجھے امن کا سبق دیں گے؟
اور یہ بھی میرے لیے بہت ہے

Comments are closed.