قدرت کے قوانین کے مطابق کائنات کی ھر شئے اپنی معتدل اور تسکین والی حالت کے لئے ارتقاء میں رھتا ھے۔ اور جب جس وقت انکی ارتقاء جمود ھو جاتا ھے، تو وہ قدرت کے قہر کے زد میں آکر زوال پذیر ھو جاتا ھے۔ یہ دنیا اور اس میں رھنے والے مخلوقات بھی مسلسل ارتقائی حالت سے گزرتے رھتے ھیں۔ ان میں 1 مخلوق نسل انسانی ھے، جو اپنی بنیادی ضروریات زندگی کے لئے مل جل کے سماج کی شکل میں رھتے ھیں۔ اور اس سماج میں ھر انسان کی بنیادی ضروریات، ان کی محنت اور وسائل کی تقسیم ایک جیسی ھوتی ھے۔ اور جب ذرائع پیداوار کی غیر منصفانہ تقسیم ھوتی ھے تو سماج مختلف طبقات میں تقسیم ھو کے بگاڑ کی صورت اختیار کرنے لگتا ھے۔ موجود عہد میں ذرائع پیداوار کی اسی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے نسل انسانی کا بیشتر حصہ ناانصافی کا شکار ھے اور اپنی محنت بیچ کر اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش میں لگے ھیں۔
اس عہد میں جہاں رجائیت پر مبنی سوچیں مقید ھوں اور جہاں سماج بدلنے کی گفتگو عام فہم میں تضحیک کا نشانہ بنتی ھو وہاں محنت کش طبقے کی بات کرنا، عمومی سوچ، سیاست اور انقلابات کی لئے جرآت اور دلیل سے کھڑے ھونا مضحکہ خیز بنا دیا جاتا ہے۔
ھر عہد ھر دور میں محنت کش طبقہ اپنی استحصالی کے خلاف تحریکیں چلاتی ھیں۔ 1917 کا بالشویک انقلاب دنیا بھر کے محنت کشوں کے لیے باعث تقویت بنا۔ لیکن 1991 میں روڈ میں ‘سوشلزم کا انہدام’ عمومی طور پر نہایت ھی منفی اثرات مرتب کرنے کا موجب بنا۔ اسی طرح پاکستان میں 1968 اور افغانستان میں 1978 کاسال محنت کشوں کے لیے باعث نجات بن سکتا تھا، مگر موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کے وحشی اور درندہ صفت حکمرانوں کی وجہ سے محنت کشوں کو پھر سے اندھیروں کا سامنا کرنا پڑا۔
آج دنیا بھر میں ایک نیا ھیجان، عدم استحکام اور سماجی تحریکیں پھر سے سر اٹھانے لگی ھیں ان گلے سڑے اور فرسودہ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جن کی ناکامی کا ذندہ مثال موجودہ کورونا کے خلاف گھٹنے ٹیکنا ھے۔
چین، لاطینی امریکہ، برطانیہ، ایکواڈور سے ہانگ کانگ اور لبنان سے ایران تک ھر جگہ محنت کشوں کی تحریکیں ابھر ابھر کے سامنے آرھی ھیں۔ غربت، بےروزگاری، محرومی، ذلت اور مہنگائی کے نئے ریکارڈ ٹوٹ اور بن رھے ھیں۔
مفلوج زدہ اور گلاسڑا ناتواں نظام انکی سرکشی کے ھر قسم کا ہربہ آزمانے سے ھچکچاتے نہیں۔ کبھی مذھب پرستی تو کبھی وطن پرستی جیسے کھوکھلے پروپیگنڈوں سے ان تحریکوں کو کچلنے کی ناکام کوششیں کر رھی ھیں۔
اس نظام میں ٹیکنالوجی سے لیکر صنعت تک، سیاست سے لیکر اقتصادی نظام تک سبھی حکمران طبقاتِ کی مختلف تراکیب ھیں، جن سے محنت اور انسانیت کا استحصال جاری رکھا جا سکے۔ لیکن محنت کش اب مزید استحصال کے شکار رھنے والے نہیں۔ صرف مسئلہ اس جرآت ہمت اور اس عزم کا ھے جس کی اس انقلاب اور نظام کی تبدیلی کے لیے ضرورت ھے۔ محنت کش عوام نے صبر کی انتہا کی ھے، اب انکے تحمل اور برداشت کی انتہا ھورھی ھے۔ اب انہوں یک جان یک قالب ھو کے اس فرسودہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ کے پھینکنا ھوگا۔
کیوں کہ
*محنت کشوں کے پاس کھونے کے لیے صرف زنجیریں اور پانے کے لیے سارا جہاں پڑا ھے۔*
Aziz Ul Haq
@azizbuneri58