مہنگائی کے مارے لوگ برکتوں کے متلاشی کیوں؟ تحریر ہما عظیم

0
38


کہنے والے کہتے ہیں پہلا  دور اچھا تھا بہت سستا بھی تھا بتانے والے بتاتے ہیں سستے میں ہم بہت کچھ لایا کرتے تھے کہ آج اتنے میں اتنا لاتے ہیں پہلے اتنے میں اتنا سارا لاتے تھے

چلیں ‘پہلے میں،’ چلتے ہیں پہلے ہم اتنے میں اتنا سارا لے آتے تھے کیونکہ تنخواہ جتنی تھی اس حساب سے بجٹ چلتا تھا

اور  جب ہم چایے پیتے تھے قہوہ رکھا جاتا تھا پھر دودھ ڈالا جاتا خالص اتنے سارے قہوے میں تھوڑا سا خالص دودھ اس زائقے کی چائے نہیں ملے گی آپ کو اب کہیں

شور اٹھا مہمان آئے ہیں ساتھ ہی سالن کا دیگچہ میں لمبے شوربے والا آلو گوشت چڑھا دیا گیا ۔

 مہمان خوش عزت دی گئی گوشت پکا کر کھلا یا گیا۔میٹھے میں جلیبیاں یا لڈو واہ جی واہ عزت بڑھا دی گئی

اب واپس آئیں۔۔چائے چڑھائیں قہوے والی چائے ہم میں سے اکثر نہیں پیتے اب دودھ پتی بنانی ہے دودھ خالص نہیں ہے نرا کمیکل ہے لیکن ہم نے ڈبے کا دودھ لینا ہے سستا مہنگا بھی نہیں دیکھنا۔۔ناک دیکھنی ہے کٹ نہ جائے

کھانے میں بریانی قورمہ روٹی نان ۔۔میٹھے میں کیا بنانا ہے کسٹرڈ  ٹرائفل کھیر آئس کریم ۔۔بوتل چٹی بھی ہو تو کالی بھی ہو نا جی۔۔۔ مہمان کی پسند ۔۔۔

پھر مہمان خوش ہو نگے ۔۔کہاں جی۔۔کھانے میں سواد نہیں تھا کہاں سے بنوایا خود بنایا ابھی تک پکانا نہیں آیا گئی بھینس پانی میں

جتنی زیادہ مہنگائی اتنے زیادہ ۔۔ ضرورت خرچے

پھر واپس چلیں گلی محلے میں گھومتے ہیں  سرشام سب بچے لڑکی، لڑکے کی تمیز کیے بغیر گلی، محلوں میں نکل آتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔ 

عزتیں سب کی سانجھی تھیں ۔۔۔۔۔۔ 

خواتین ایک دوسرے کے گھر جا کر سویٹر اور کڑھائی کے ڈیزائن کاپی کیا کرتی تھیں۔ اور سردیوں میں جس گھر کے صحن میں دھوپ لگتی تھی بزرگ خواتین وہیں ڈیرا جما لیتی تھیں۔ 

پلیٹ میں گھر کا تازہ بنا ہوا سالن ایک دوسرے کے گھر بھیجا جاتا تھا۔ اس سے ایک تو محبت بڑھتی تھی اور دوسرے اس رواج کی وجہ سے کوئی بھوکا نہیں سوتا تھا۔ سفید پوشوں کا بھی بھرم رہ جاتا تھا۔۔۔۔۔

ہر محلے میں ایک بیٹھک مختص تھی۔ پورے محلے کے مرد حضرات شام کو ضرور وہاں بیٹھتے تھے۔

جہاں بزرگ اپنی زندگیوں کے قصے سناتے تھے وہیں سب سے پورے دن کی روداد بھی سنتے تھے۔اس طرح سب ایک دوسرے کے حالات سے باخبر رہتے تھے۔ 

یہ وہ دور تھا جب خط لکھ کر ہفتوں یا مہینوں بعد خیریت پتہ چلتی تھی۔ مگر لوگوں کے دل ایک دوسرے کے قریب تھے۔۔۔۔۔۔۔

آج رابطے حد سے زیادہ ہیں اور دل اتنے ہی دور۔۔۔۔۔۔۔

کسی کو خبر نہیں ہمسائے میں کون رہتا ہے اور نہ ہی کوئی گلی میں جا کر کھیل سکتا ہے۔۔۔۔۔

کیبل ڈراموں سے خواتین کو فرصت نہیں کہ وہ ایک دوسرے کے گھر جائیں اور نہ ہی کسی کے گھر کچھ پکا کر بھیجا جاتا ہے۔۔۔۔۔ نجانے قریب واقع گھروں میں کتنے لوگ بھوکے پیٹ سوتے ہوں گے۔

آج ہمیں معلوم نہیں پڑوس میں کون رہتا ہے۔۔

یہاں تک رشتہ داروں میں بھی ہم صرف ان لوگوں سے ملنا پسند کرتے ہیں جو ہماری اچھی سیوا کر سکے کسی غریب  رشتہ دار سے ہم اس لئیے بھی نہیں ملتے ایک تو اسکی زیادہ کھلانے پلانے کی ہمت نہیں دوسرے وہ اپنی کسی ضرورت کا ہی زکر نہ کر بیٹھے۔۔

لین دین کا یہ عالم ہے کہ ہم امیروں کے گھر دینے کے لئیے اچھے سے اچھا اور مہنگے سے مہنگا دیتے ہیں حالانکہ ان کو اس کی ضرورت نہیں۔۔پھر بھی تنقید سے نہیں بچ پاتے۔۔غریب کو دینا پڑے تو ڈھونڈ کے سستی شے لائی جاتی ہے حلانکہ وہ حقدار ہے۔۔پہلے دور میں برکتیں یوں بھی تھیں کہ ماڑوں کو اٹھایا جاتا تھا۔۔ان کے گھر کی خیر خبر رکھی جاتی تھی۔۔اب یہ رواج ناپید ہو چکا ہے

پھر ہم روتے ہیں۔۔گزارہ نہیں ہوتا۔۔۔برکت نہیں۔۔

کمائی سے زیادہ خرچہ ہے۔

پہلے چھوٹی چھوٹی کمیٹیاں ڈال کے بڑی بڑی ضرورتیں پوری کر لی جاتی تھیں۔۔

کاش وہ دور واپس لا پائیں۔۔

کم کمائی کی برکتیں 

محبتیں

رفاقتیں

لوٹ آئیں

‎@DimpleGirl_PTi

Leave a reply