اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ بہت سے طبقات کے لیے پریشان کن ہوتا ہے وہ افراد جو کہیں معمولی سی جاب کرتے ہیں اور وہ لوگ جو دیہاڑی دار مزدور ہیں اور وہ طبقہ جو کھیتی باڑی کرتا ہے مہنگائی سے بہت زیادہ متاثر ہوتا ہے،
اگر کسی ملازم کی بیس پچیس ہزار تنخواہ ہے اور اس کے گھر کا خرچہ اس تنخواہ میں بمشکل پورا ہوتا ہے تو اشیاء کی قیمتوں میں مزید اضافہ اس کے لیے پریشانی کا سبب بن سکتا ہے،
مزدور جو کہ روزانہ کی اجرت پر کام کرتا ہے اگر وہ صبح سے شام تک کام کرکے آٹھ سو روپے کماتا ہے تو اسے بھی یقیناً مہنگائی کی وجہ سے مشکل وقت سے گزرنا پڑ سکتا ہے،
اگر دیکھا جائے تو 800 روپے ایک دن کے لیے ناکافی ہے موجودہ حالات میں تو ایک شخص یا دو سے تین افراد مشکل ہی سہی لیکن گزارا کر لیں گے کیونکہ ہر شخص اپنی آمدنی کو دیکھ کر اپنے گھر کا بجٹ بناتا ہے لیکن اشیا کی قیمتوں میں اضافہ یعنی مہنگائی ان کے اس بجٹ پر اثر انداز ہوتی ہے جو انہوں نے بمشکل کھینچ تان کر کفایت شعاری سے بجٹ بنایا ہوتا ہے،
مہنگائی ایک ایسی بلا کا نام جو دن بدن ہمارے معاشرے میں اپنے پنجے مضبوط کر رہی ہے اس کی ایک وجہ حکومت کی ناکام پالیسیاں بھی ہو سکتیں ہیں اور دوسری وجہ بھی حکومت سے تعلق رکھتی ہے کہ مکمل طور پر سنجیدگی سے ایشا کے حکومتی ریٹ پر تاجروں کو پابند کیا جائے کہ وہ اسی مقرر کردہ ریٹ پر اشیاء کو فروخت کریں گے،
اس کی جانچ پڑتال کرنا سبزی منڈی کے بیوپاریوں ٹیکسٹائل تاجروں اور مرچنٹ تاجروں پر نظر رکھنا سب حکومتی اداروں کا کام ہے،
اور تیسری بڑی وجہ کے انٹرنیشنل سطح پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ بھی مہنگائی کا سبب بنتا ہے اور اس کے متعلق تو کچھ بھی نہیں کیا جاسکتا جب تک عالمی طور پر قیمتوں میں کمی کی جائے،
لیکن ایسے ٹائم پیریڈ میں حکومت عوام کے لیے سبسڈی نام کی ایک سہولت مہیا کرتی ہے جس سے نچلا طبقہ مستفید ہوتا ہے بشرطیکہ سبسڈی کا صحیح استعمال کیا جائے اور حقدار ہی اس سے فائدہ اٹھا سکیں،
مہنگائی پر کچھ چیدہ چیدہ باتیں ہیں جو ہم آپ سے شیئر کر رہے ہیں مہنگائی سے متاثر افراد کی ایک بہت بڑی تعداد ہے جسے یہاں پر بیان کرنے سے یہ تحریر ایک کتاب کی شکل اختیار کر جائے گی،
چاہتے ہیں کہ مختصر سی تحریر ہو اور اس میں صرف ایسی ہی چند بنیادی باتوں کا ذکر کیا جانا مناسب ہے،
میرا مقصد کسی سیاسی جماعت یا حکومت پر الزام تراشی کرنا ہر گز نہیں ہے لیکن حکومت ہی مہنگائی اور دیگر اہم چیزوں کی ذمہ دار ہوتی ہے مثلاً بیروزگاری کی شرح میں اضافہ اشیاء خورد نوش میں ملاوٹ کے رجحان کو روکنا جیسے بنیادی عوامل شامل ہیں،
ایک تو مہنگی چیز خریدی جائے اور دوسری وہ ملاوٹ سے پاک نہ ہو تو ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے،
چونکہ ہمارا موضوع مہنگائی اور عام افراد ہیں اس لیے باقی چیزوں پر تبصرہ کرنا غیر ضروری ہے،
مہنگائی سراسر نچلے طبقے کا ہی زیادہ مسئلہ ہے جن کی آمدنی ان کے اخراجات سے تھوڑی کم یا پھر ان کے اخراجات کے برابر ہے،
اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنا اور علاج معالجہ اور دیگر اخراجات کیسے وہ اپنی مختصر سی آمدنی میں پورے کر پاتے ہیں،
بجلی اور گیس کے بل اور بچوں کے سکولوں کی فیسوں کے اخراجات عام آدمی کے لیے پورا کرنا بہت مشکل ہو جاتا،
اگر دیکھا جائے تو کسی بھی ملک میں مہنگائی اور بیروزگاری کی وجہ سے وہاں کے معاشروں میں لوگوں کی جیب کاٹنا، گاڑیاں چھیننا، موبائل چوری کرنا جیسے جرائم بڑھ جاتے ہیں،
ہمارے معاشرے کو اللہ ان جرائم سے محفوظ رکھے اور صبر کے ساتھ حلال کمانے اور حلال کھانے کی توفیق دے،
ہماری حکومت پاکستان نے عام آدمی کے علاج معالجے کے لیے صحت انصاف کارڈ کا اجرا کیا تھا اور یہ عام آدمی تک پہنچا ہے اور اس کے علاوہ احساس پروگرام بھی شروع کیا ہے جس کے ذریعے مستحق افراد تک پیسہ پہنچایا جا رہا ہے تاکہ وہ اپنی ضروریات کو پورا کر سکیں،
میں سمجھتا ہوں کہ نوجوانوں کو روزگار مہیا کرنا اور مہنگائی کی شرح کو بڑھنے سے روکنے کے لیے اقدام کرنا زیادہ بہتر ہے کہ ہر شخص خود کفیل ہو اس کی آمدنی اس کے اخراجات سے زیادہ ہو وہ اور خوشحال زندگی بسر کر سکے،
@zsh_ali