مینٹل ہیلتھ تحریر: خالد عمران خان

ذہنی پسماندگی ہمارے ہاں بڑھتی چلی جارہی ھے اور سب سے بڑی جہالت یہ ھے کہ ہمارے ہاں زہنی مرض کو بیماری سمجھنے کی بجائے لوگ دیگر عوامل کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔ جہالت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ھے کہ زہنی مریض کو اکثر جنات کے زیر اثر قرار دے دیا جاتا ھے جس کی وجہ سے زہنی مریض کو باقاعدہ علاج کی بجائے پیری فقیری کے چکروں میں ڈال دیا ھے جاتا ھے جو کہ انتہا درجے کی جہالت کا واضع ثبوت ھے۔

اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمارے سامنے بہت سے ایسے معاشروں اور تہذیبوں کی مثالیں آتی ہیں جس سے ہمیں پتہ چلتا ھے کہ بہت سے معاشرے اور تہذیبیں گردش وقت میں گم ہوگئیں، ہمارے معاشرے میں جو دن بہ دن بگاڑ سامنے آرہا ھے اس میں سب سے بڑا مسئلہ انسانی رویوں کا خوفناک حد تک بگاڑ ھے جو کہ تشویش کی بات ھے۔اب اگر ہم ایشائی ممالک کا تجزیہ کرتے ہیں تو اول تو زیادہ تر کو زہنی امراض سے آگاہی ہی نہیں ھے بالفرض اگر معلوم ہو بھی جائے تو ہمارے ہاں چیزوں کو چھپانے کا رواج عام ھے یہاں لوگ زہنی امراض کو چھپا کر رکھتے ہیں، زہنی امراض کو باعث شرمندگی قرار دیا جاتا ھے اگر نوجوانوں میں یہ مسئلہ ہو تو اس لئے بھی خفیہ رکھا جاتا ھے کہ اگر کسی کو پتہ چل جاتا ھے ان کی زینی بیماری کا تو بہت سے مسائل جنم لے سکتے ہیں اور اہم مسئلہ یہ کہ ان کی شادی بھی ناممکن ہوجائے گی۔ اصل میں ڈپریشن کے لئے کوئی مخصوص لفظ نہیں ھے اس سے متاثرہ لوگوں کے بارے میں یہ تاثر دیا جاتا ھے کہ انہیں زندگی کے نشیب و فراز کا سامنا ھے۔ عالمی ادارہ صحت اپنی ایک رپورٹ میں بتاتا ھے کہ دنیا بھر میں تقریباً 45 کروڑ افراد کسی نہ کسی دماغی بیماری میں مبتلا ہیں۔ذندگی کے سہل پسند معاملات نے انسانی جسم کو خاصا متاثر کیا ھے وہیں ہمارے معاشرتی رویوں نے غربت پر بہت گہرا اثر ڈالا ھے اسی وجہ سے پیچدہ ذہنی مسائل جنم لینا شروع ہوگئے ہیں ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ھے کہ روزمرہ کے معمولات جیسے کہ کسی کی زندگی میں غم و خوشی یا خوف وغیرہ کی کوئی ظاہری وجہ وقع پذیر نہ ہونے کے باوجود دماغ میں کیمیکلز عدم توازن کے باعث ایک انسانی دماغ ان تمام کیفیات میں مبتلا ہوسکتا ھے۔

ایسے مواقعوں پر ضروری ھے کہ ذہنی مرض میں مبتلا مریض کی مکمل کونسلنگ کروائی جائے تاکہ مریض کے طرز زندگی اور سوچ میں مثبت تبدیلی لائی جاسکے اس کے علاوہ ذہنی مریض کے تجویز کردہ ادویات بھی عصبی کیمیائی مادوں کو واپس اپنی جگہ پر لانے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔
دنیا بھر میں اس وقت زہنی ڈپریشن دنیا بھر میں ایک اہم مسئلہ بن چکا ھے کچھ افراد اس قدر ذہنی دباؤ کا شکار ہوجاتے ہیں کہ خودکشی تک کرلیتے خصوصاً نوجوانوں میں یہ رجحان خطرناک حد تک بڑھ چکا ھے گزشتہ کچھ واقعات ایسے بھی دیکھنے کو ملے ہیں کہ امتحانات میں ناکامی کے خوف کی وجہ سے طلباء نے خودکشی جیسا انتہائی اقدام اٹھایا، ایک محتاط اندازے کے مطابق آدھے سے ذیادہ زہنی مریضوں کی عمر چودہ سال سے شروع ہوتی ھے محکمہ صحت کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ھے کہ پاکستان میں ہر چھ میں سے ایک فرد زہنی مرض میں مبتلاء ھے۔
طبی ماہرین یہ مشورہ دیتے ہیں کہ زہنی امراض کے تدارک کے لئے یہ ضروری ھے کہ عوام میں علاج معالجہ کے ساتھ اس بیماری سے متعلق شعور بھی اجاگر کیا جائے کیونکہ ہمارے ہاں اکثر یہ دیکھنے میں آیا ھے کہ زیادہ تر ہمارے ہاں زہنی امراض کا علاج کروانے سے کتراتے نظر آتے ہیں، انسان خواہ کتنا ہی اندر سے مضبوط کیوں نہ ہو یہ بیماری کسی کو بھی لاحق ہوسکتی ھے زہنی مریض خاص طور پر خصوصی توجہ کا مستحق ہوتا ھے، خاص توجہ سے ہی ایسے مریض واپس نارمل زندگی کی طرف آسکتے ہیں نا کہ ہنسی مذاق اڑانے سے اسی لئے اگر خدانخواستہ کسی کے گھر میں بھی کوئی اس طرح کی صورتحال پیدا ہوتی ھے تو اس کے لئے یہ ضروری ھے کہ ایسے مریضوں کے ساتھ شفقت کے ساتھ پیش آئیں جائیں تاکہ وہ جلد صحتیاب ہوکر معاشرے کے معزز شہری بن سکیں

Twitter ID :‎@KhalidImranK

Comments are closed.