بچپن میں میرے بھائی جان جب مجھ سے پوچھتے تھے پاکستان کس نے بنایا میں رٹے رٹائے طوطے کی طرح بول دیتی تھی قائداعظم نے لیکن دل میں سوچا کرتی تھی اتنا بڑا پاکستان قائداعظم نے کیسے بنایا ہوگا میری نظر میں گھر سڑکیں وغیرہ تھیں کہ یہ قائداعظم نے بنایا اب سوچتی ہوں تو ہنسی آتی ہے اپنی بچپن کی سوچ پر ۔لیکن اتنی عقل نہیں تھی کہ بھائی جان سے پوچھ لوں اس بارے میں۔۔خیر پھر جوں جوں بڑی ہوتی گی تاریخ کی بنادی چیزیں نصاب میں پڑھنی شروع کی تو اندازہ ہوا میرا پاکستان کس قدر قربانیوں ۔خون کی ندیاں بہانے۔کے بعد حاصل ہوا تھا ۔۔پھر میری دادی امی نے پاکستان کی تاریخ آنکھوں دیکھی مجھے بھی بتائی کیونکہ میرا بہت وقت گزرا اپنی دادی امی کے ساتھ ان سے پاکستان بننے کے بعد کے آنکھوں دیکھے واقعات سن سن کر ایسے لگتا تھا جیسے میں بھی ان کے ساتھ یہ واقعات اپنی آنکھوں سے دیکھے آج سے 73 سال پیچھے چلے جائیں ۔ تاریخ کے اوراق پلٹیں ایک ٹرین اسٹیشن پر رکی نظر آئے گی جموں کشمیر سے جب میرے اباواجداد نے ہجرت کی ان کے پاس بس ایک چھوٹی سی پوٹلی تھی جس میں جلدی میں کچھ ضروری چیزیں رکھی ہوئی تھی اپنا قیمتی سازوسامان پیچھے چھوڑ کر درد کی داستان لے کر حجرت کے لیے رخت سفر باندھ لیا میرے ددھیال اس دور کے بہت امیر ترین جاگیردار تھے لیکن بے سروسامانی کی حالت میں انھیں اپنے محل نما گھر چھوڑنے پڑھے اسٹیشن پر ایک ٹرین کھڑی تھی جس میں ہمارے بزرگ دھڑکتے دل کے ساتھ سوار ہوگے لیکن یہ نہیں پتہ تھا ابھی اور تکلیف دہ امتحان باقی ہیں ۔ابھی سفر شروع بھی نہیں ہوا تھا ہندوں نے مسلمانوں پر حملہ کردیا ہر طرف خون ہی
خون ، کٹی پھٹی لاشیں ، خوف سے پتھرائی ہوش حواس سے عاری چند زندہ لاشیں بھی ہیں
کون ہیں یہ ۔ یہ بھی وہی ہیں جو ہجرت کے راہی بنے ۔
جو الگ اسلامی و فلاحی ریاست کا حسین خواب لیے کاروبار، جائیداد ، زمینیں ، مال مویشی سب قربان کر کے نکلے مگر ہجرت کہاں پھولوں کی سیج ہے ۔
عزتیں تار تار ہوئیں ، بیٹیاں لٹ گئیں ، بھوک سے بلکتے معصوموں کی اگر رونے کی آواز بڑھتی تو گلا دبا دیا جاتا کہ کہیں بلوائیوں کو خبر نہ ہو جائے۔
وہ سب ہمارے اسلاف نے جھیلا جو بیان کرنے بیٹھیں تو آنکھیں کتنی دفعہ بھیگتی ہیں اندازہ ہی نہیں ہوتا۔ دل خون کے آنسو روتا ہے کہ ہم نے بہت کچھ کھو کر یہ آزاد ملک ، یہ چھوٹا سا زمین کا ٹکڑا حاصل کیا ہے جب اس پر کوئی میلی نظر ڈالنے کی کوشش کرتا ہے تو ہم اپنے جذبات کنٹرول نہیں کر پاتے
جب بھی اسلامی فلاحی ریاست کا خواب دیکھا گیا قربانیاں دینی پڑیں ۔ 1400 سال پیچھے کی تاریخ اٹھا لیں ۔
سو سرخ اونٹ کا انعام رکھا گیا۔
اعلان ہو گیا ۔کہ جو بھی محمد ﷺ اور انکے ساتھی کو پکڑ لائے گا اسکو انعام میں سو سرخ اونٹ دئیے جائیں گے عربوں میں اونٹوں کی یہ قسم بہت نایاب اور مہنگی ترین تھی
سراقہ بن مالک پیچھا کرتے کرتے پہنچ گیا۔ دیکھ بھی لیا مگر حق کی نشانیاں اپنی آنکھوں سے دیکھ کر سمجھ گیا پلٹ آیا۔
دن پہاڑوں میں چھپتے چھپاتے سفر کرتے ہوئے اور راتوں کو غار میں پناہ لیتے ہوئے یہ ہجرت کا سفر جاری یے ۔
محمد رسول اللہ ﷺ ہیں ساتھ صدیق اکبر ؓ ہیں
غار میں سوراخ بند کرنے کو جب اشیاء کم پڑیں تو پاؤں کی ایڑی لگا دی ۔ سانپ نے ڈس لیا۔
آزمائش، مصائب ، خوف ، سفر جیسا عذاب کا دوسرا نام ہجرت ہے
مصعب بن عمیر مکہ کا شہزادہ ، خوشبوؤں سے پہچانا جاتا کہ یہاں مصعب گئے ہیں
ایک دفعہ لباس اتارا پھر وہ نہیں پہنا ۔ نیا ہی زیب تن کیا۔ اتنے شاہانہ انداز سے ذندگی بسر کرنے والوں پر پھر ایسا وقت بھی آیا کہ جب مدینہ ہجرت کر کے پہنچے تو ٹاٹ سے جسم لپیٹا ہوا تھا یہ ہجرتوں کے مرحلے بہت کٹھن ہوتے ہیں۔
مگر سوال یہ ہے کہ وہاں تو تاریخ نے دیکھایا کہ انصار و مہاجر کی اخوت ، بردباری، سخاوت اور تربیت رسول اللہ نے وہ معاشرہ وہ ریاست تشکیل دی کہ آج بھی نمونہ ہے ۔ قابل ستائش، قابل تقلید ، قابل فخر اس معاشرہ نے جنم لیا جس کی حدیں ہر اعتبار سے بڑھتی ہی گئیں ۔
جانثار بڑھتے گئے ۔ پاسبان بڑھتے گئے ۔
اسلامی حدود ایک خلیفہ اسلام کے دور میں 11 لاکھ مربع میل، پھر 22 لاکھ ، پھر 44 لاکھ ، پھر 65 لاکھ مربع میل کی وسعت پکڑ گئیں۔۔۔
مگر کیا ہمارے اسلاف کی 73 سال پہلے کی قربانیوں کے عوض ہم نے اس دھرتی کو کیا دیا۔
گریبان میں جھانکیے۔ خود کو دیکھیں ہم کس دوراہے پر کھڑیں ہیں۔
معصوم بچوں اور کنوؤں میں کود کر عزت بچاتی بہنوں بیٹیوں کے روز محشر سوالوں کے جواب کیسے دے سکیں گے
اسلامی و فلاحی ریاست کی پھیلتی سرحدوں کا خواب تو دور اسلامی معاشرہ ہی تشکیل دے لیتے ۔
اخلاقی پستی ، بے راہ روی ، خون سفید ہو چکے ، دھرتی ماں کو نوچ نوچ کر کھاتے والے ہم ، اغیار کی خوشی کے لیے ہم نے ہمارے بے حس حکمرانوں نے کیا کچھ نہیں کیا۔
مسلمانوں کے خون کے پیاسوں کو کبھی ساڑھیاں، کبھی آم، کبھی لسٹیں فراہم کیں۔ اور کبھی اپنی فوج کی پیٹھ پر چھرا گھونپ دیا گیا پھر جب ان غداروں کو ایکسپوز کیا جاتا ہے تو پاکستان کی ہڈیاں نوچ کر کھانے والوں کے دفاع میں پاکستان میں چھپی کالی بھڑیں آجاتی ہیں ۔جب بھی معاملہ ملک کی سلامتی پر آیا پاکستان میں چھپے پاکستانی ڈریس میں انڈیا کے ایجنٹوں نے معصوم کم پڑھے لکھے پاکستانیوں کو اپنے ساتھ ملا کر خوب پاکستان کا مذاق اڑایا اور بعض اوقات میں سوچتی ہوں ان کو لگام ڈالنے والا بھی کوئی نہیں جو یہ ہمارے ملک میں دھندناتے پھر رہے ہیں
ہم مجرم ہیں قائداعظم کے ہم نہیں نکال پارہے ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے والے ناسوروں کو ۔ہمارے سیکورٹی ادارے بھی انڈین ایجنٹوں کو عوام کی عدالت میں پیش نہیں کرسکے جو اتفاق فاونڈری میں ملازمت کرتے پکڑے گے تھے
ہم مجرم ہیں ان شہیدوں کے جن کے لہو سے یہ گلشن سینچا گیا۔
30 سال میں پہلی دفعہ پاکستان کی باگ ڈور ایسے انسان کے ہاتھ میں آئی ہے کہ اب امید ہوچلی کہ ہم اپنا کھویا ہوا وقار بحال کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے وہ وقت دور نہیں ہم اپنے سبز پاسپورٹ فخر سے لوگوں کو دکھایا کریں گے کہ ہم پاکستانی ہیں اور لوگ رشک سے ہماری طرف دیکھا کریں گے ان شاءاللہ پاکستان رہتی دنیا تک شاد آباد رہے گا کیونکہ یہ اسلام پر بنا ہے ۔۔پاکستان ذندہ باد ہے ذندہ باد رہے گا ان شاءاللہ ۔۔۔

"

Shares: