میری سر زمین کا عزاز ، تحریر ، عمیر ضیاء

موٹر وے پر لاہور کی جانب سے سفر کرتے ہوئے جب آپ دریائے چناب کا پل کراس کر کے سرگودھا کی حدود میں داخل ہوتے ہیں تو بڑا سا بورڈ دکھائی دیتا ہے جس پر مالٹوں کی تصویر بنی ہے اور لکھا ہے
” Entering the best citrus producing area "۔
یہ بورڈ صرف بورڈ نہی بلکہ ایک اعزاز ہے جو میری سرزمین کو ملا ہے ، 1935 میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے ترشادہ پھلوں کے تجربہ گاہ نے مالٹے کی ایک نئی قسم دریافت کی جو دو مختلف اقسام کے سٹرسز king اور willow leaf کے ملاپ سے بنی تھی

اس لئے اس نئی قسم کو kinow کا نام دیا گیا
اور دنیا کے مختلف حصوں میں تجرباتی کاشت کے لئے بھیجا گیا ۔1960 کے زمانے میں یونیورسٹی سے کنوں کے پودے پاکستان بھجے گئے
جنھیں ملک کے مختلف حصوں میں کاشت کیا گیا لیکن سرگودھا کی زمین نے نا صرف بخوشی قبول کیا بلکہ ایسی مٹھاس بخشی کہ دنیا بھر میں سرگودھا کا کنوں اپنے منفرد ذائقے اور سائز کی وجہ سے مشہور ہے۔

کیلیفورنیا اور سرگودھا کے اسی تعلق کی بنا پر سرگودھا کو کیلیفورنیا آف پاکستان کہا جاتا ہے۔
دریائے چناب اور جہلم کے درمیان پھیلی کھٹے میٹھے ذائقوں والی اس سرسبز وادی میں آج بھی پرانے اور دیہی پنجاب کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔
جہاں میلوں تک پھیلے باغات کے درمیان پرانے طرز کی بنی حویلیوں میں سردیوں کی شاموں میں لوگ آگ کا الاؤ جلا کر اردگرد بیٹھتے ہیں اور گڑ کی چائے اور گنے چوپنے کے دور چلتے ہیں
جہاں ایک دوسرے کے دکھ سکھ بانٹے جاتے ہیں اور سماجی مسائل پر گفتگو ہوتی ہے۔
یہاں آج بھی صبح کا آغاز دیسی ککڑ کی بانگ سے ہوتا ہے ، اور لوگ رب کے حضور سجدہ ریز ہو کر اپنی صبح کا آغاز کرتے ہیں۔
پنجاب کی یہ خوبصورت دھرتی آج بھی اپنی روایتوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں
جس میں آہستہ آہستہ جدیدیت ا رہی ہے
اللہ پاک سے دعا ہے کہ آنے والے سالوں میں بھی ہماری یہ روایات برقرار رہیں ۔

Shares: