میری ذاتی رائے تحریر: عامر میکن

0
53

میں ایک مسلم پاکستانی باشندہ ہوں ،،
کچھ دن پہلے میرے ایک دوست نے بنک سے قرضہ لینا تھا تو اس نے مجھے گرنٹر بننے کو کہا میں نے ناچاہتے ہوئے بھی ٹھیک ہے کہہ دیا
اگلے دن بنک سے دو آدمی آئے ہم نے ان کے لیے چائے وغیرہ کا انتظام کیا ان کے ہاتھ میں ایک فارم تھا جو میرے دوست کے نام پر بنا ہوا تھا انہوں نے اس فارم پر ہمارے سائن وغیرہ لیے اور کہا کل آکر پیسے لے جانا اور وہ چلے گے ،،
تو میں نے اپنے دوست سے پوچھا کہ تم کتنے پیسے لے رہے ہو اور اس میں سود کتنا دینا پڑے گا
تو اس نے بتایا کہ
میں نے ایک لاکھ 100000 روپے کا لئون اپلائی کیا ہے اور یہ مجھے پچانوے ہزار روپے دیں گے اور میں نے ان کو واپسی ایک لاکھ چوبیس ہزار دینے ہیں
یعنی چوبیس ہزار سود اور پانچ ہزار بنک والوں کو رشوت
رشوت ،،میں نے بہت حیرانگی سے پوچھا کہ یار وہ اس بنک کا اپنا ادارہ ہے اور وہ بھی رشوت لیتا ہے
وہ بولا ہاں بھائی دینے پڑتے ہیں نہیں تو کبھی ان کا جنریٹر خراب ہوتا ہے کبھی سسٹم نہیں چلتا تو کبھی مینجر چھٹی پر ہوتا ہے اس لیے کرنا پڑتا ہے
اب چلتے ہیں ہم پہلے فقرے کی جانب،،
میں ایک مسلم پاکستانی باشندہ ہوں،،
میرا مذہب اسلام ہونے کے ناتے میرے دین میں سود حرام ہے

سود الللہ اور اس کےرسول ﷺ سے اعلان جنگ ہے
اس میں تو کسی بھی مسلمان کی دوسری رائے نہیں ہے ایک اور بات میرے مذہب میں رشوت لینے والا بھی اور رشوت دینے والا بھی دونوں جہنمی ہیں
کیا میرا اس بات پر یقین ہے یار سوچنے والی بات ہے
یقیناً اگر میرا ایمان پختہ ہوتا تو میں ہر گز ایسا نا کرتا

چلیے تصویر کا دوسرا رخ دیکھتے ہیں
ہم سب کچھ جانتے ہوئے بھی یہ سب کچھ کیوں کررہے ہیں وہ اس لیے جناب کہ ہمیں اس سود کو کھانا ،حلال بتایا گیا ہے
باقاعدہ پاکستان کے آئین میں اسے بزنس کا درجہ دیا گیا ہے اور ہم ہیں کہ اس کو سمجھنا ہی نہیں چاہتے ہماری دینی غیرت کا آخری نعرہ یہ ہی ہوتا ہے
،،او بس بھائی کیا کرسکتے ہیں ،،

بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ایسے ہزاروں گناہ جو ہم جان بوجھ کر کرتے پیں اور حیرانگی کی بات یہ ہے کہ ہم ان گناہوں سے بچنا بھی نہیں چاہتے اور اس کی سب سے بڑی وجہ ہماری دین سے دوری ہے کہ ہم نے دین کو صرف مسجد تک محدود کر دیا ہے ہم دین سے اس قدر دور ہو چکے ہیں کہ ہم کو اس دور میں دین پر چلنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن بھی لگتا ہے ہم نے کبھی اس بات کا تصور ہی نہیں کیا کہ ہمارے ملک پاکستان میں بھی کبھی نظام مصطفیٰ ﷺ نافظ ہوگا
ہم ان بہتر سالوں میں اس قدر بھٹک چکے ہیں کہ ہم نے (معزرت کے ساتھ) سیاست کو دین سے بالاتر سمجھ لیا ہے یہاں تک کہ ہم کو رسول اللہ ﷺ کی عزت آبرو (معاذاللہ)سے زیادہ عزیز اپنی معیشت ہو چکی ہے ہم دنیاوی لیڈر کی محبت میں اس قدر مدہوش ہو چکے ہیں کہ ہم اپنے لیڈر سے گستاخ رسول ﷺ سے لا تعلقی کا مطالبہ بھی نا کرسکے جیسا کہ حالیہ دنوں میں فرانس کا معاملہ تھا
یار ٹھیک ہے تمہارا لیڈر اچھا ہے وہ ایماندار ہے لیکن اس کی محبت میں انسان کو اس قدر مدہوش نہیں ہونا چاہیے کہ آپ حق اور باطل کی پہچان نا کر سکیں
دعا ہے الللہ رب العزت ہمیں حق کو پہچاننے اور اس پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ،،

،،
‎@Amirmaken123

Leave a reply