انسان ایک معاشرتی جانور ہے۔ انسان اور حیوان میں فرق صرف شعور کا ہے۔ انسان نے جب شعور حاصل کیا تو یہ دوسری مخلوقات سے افضل اور نمایاں ہو گیا۔ شعور کا تقاضہ ہے کہ ایک خاص تہذیب اور رہن سہن اختیار کیا جائے۔ جب مختلف تہذیبیں وجود میں آتی ہیں تو مختلف قومیں، ممالک اور معاشرے بنتے ہیں۔ جب معاشرے اور قومیں الگ الگ ہوتی ہیں تو ان کے مفادات بھی علیحدہ ہو جاتے ہیں۔ اور جب مفادات علیحدہ ہوں تو اپنے مفادات اور حدود کا دفاع لازم ہو جاتا ہے۔
پاکستان ہمارا ملک ہے۔ ہمارا اپنا ایک الگ نظریہ، اپنی جغرافیائی حدود، اپنا ماضی اور اپنی اخلاقی روایات ہیں۔ پاکستان کے بھی اپنے مفادات اور محافظ ہیں۔ پاکستان روزِ اول سے ہی اسلام دشمنوں کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے۔ چنانچہ پاکستان کو پہلے دن سے ہی مختلف سازشوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ہمارا سب سے پہلا دشمن ہمارا ہی ہمسایہ بنا۔ پاکستان کی شہہ رگ ہی پاکستان کے حوالے نہیں کی گئی۔ ان سب حالات میں وسائل کی کمی کے باوجود پاکستان کو اپنے سے پانچ گنا بڑے ملک سے محفوظ رکھنا واقعی جوئے شیر لانے سے کم نہیں تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ کام افواجِ پاکستان کے ذریعے کیا۔ افواجِ پاکستان شروع سے ہی انتہائی کم وسائل کے باوجود احسن طریقے سے پاکستان کا دفاع کرتی آ رہی ہیں۔ تقسیمِ ہند کے وقت پاکستان کے حصے میں ایک بھی آرڈیننس فیکٹری نہیں آئی۔ لیکن اس کے باوجود بھی پاکستان نے ہمت نہیں ہاری اور وجود میں آنے کے ایک سال بعد ہی لڑی جانے والی جنگ میں کشمیر کا ایک بڑا حصہ بھارت سے آزاد کرا لیا۔ اس کے بعد کی جنگوں میں بھی پاکستان نے بھارت کو ناکوں چنے چبوائے۔
آخر کون ہیں وہ جو دشمن کے توپوں کے سامنے سینہ سپر کرتے ہیں؟ کیا وہ فرشتے ہیں؟ جنات ہیں؟ یا کوئی اور نادیدہ مخلوق؟
وہ افواجِ پاکستان کے جوان ہیں۔ جو زمین پہ ہوں تو شیر، فضا میں ہوں تو شاہین اور پانی میں ہوں تو شارک بن جاتے ہیں۔ حالت جنگ میں پہلے مورچوں پہ موجود ہوتے ہیں اور دشمن کے گولوں کو اپنے سینے پہ روکتے ہیں۔ لیکن مادرِ وطن پر کوئی آنچ نہیں آنے دیتے۔ جب حالتِ امن ہو تو اکثر اوقات سول اداروں کے ساتھ عوامی فلاح و بہبود کے کاموں میں مصروف نظر آتے ہیں۔ کوئی بھی قدرتی آفت آئے یا کہیں ایمرجنسی ہو جائے، ایک ایسا فقرہ ہے جسے سننے کے بعد ہر انسان مطمئن ہو جاتا ہے اور اس کی سانس میں سانس آ جاتی ہے اور وہ ایک فقرہ یہ ہے:-
"افواجِ پاکستان نے کنٹرول سنبھال لیا”
بارڈر پہ جنگ ہو یا شہری علاقوں میں زلزلہ، دیہات میں طوفان ہو یا قصبوں کی آگ، ہر جگہ افواجِ پاکستان کے سپوت ہی پہلی صفوں میں ملتے ہیں۔ ہر جگہ قربانی اور دفاعِ وطن کے جذبے سے سرشار یہ جوان دفاعِ وطن میں مگن ہیں۔ کہیں کندھوں پہ رائفل لئے ہوئے مورچوں کی حفاظت کر رہے ہیں تو تو کہیں منفی بیس ڈگری کے درجۂ حرارت میں پاکستان کے تاج سیاچن کی چوٹیوں کے دفاع میں مگن ہیں۔ کہیں فضاؤں اور سمندروں کا سینہ چیرتے ہوئے وطن کے رکھوالے بنے ہوئے ہیں تو کہیں گمنام مجاہد بن کر اس دھرتی ماں کی حفاظت کے کئے گئے وعدے کی تکمیل کے لئے دشمنوں کے دیس میں بھیس بدلے کوڑا کرکٹ اکٹھا کر رہے ہیں۔ ان کی زندگی بھی گمنامی میں گزرتی ہے اور موت بھی گمنامی میں آتی ہے۔ اس دھرتی ماں کے لئے انہوں نے اپنا سب کچھ قربان کر دیا ہے۔
صلیبی جنگوں کے زمانے میں صلیبیوں نے سلطان صلاح الدین ایوبی کو شکست دینے کے نت نئے طریقے آزمائے اور ایجاد کئے۔ جن میں ایک یہ بھی تھا کہ افواج اور عوام میں اگر دوری پیدا کر دی جائے تو اس ملک پر آسانی سے قبضہ کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ یہ سلسلہ اسی وقت سے شروع ہو چکا ہے۔ کبھی کوئی الزام عائد کیا جاتا ہے تو کبھی کیا الزام لگا دیا جاتا ہے۔ وطن بیزار لوگ افواجِ پاکستان پر تنقید کرنا ثواب سمجھتے ہیں اور ہماری بھولی بھالی عوام ان پر یقین کر کے مزید آگے پھیلانے میں بھی معاون بن جاتی ہے۔ جیسے پچھلے دنوں سابق آرمی چیف جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی کے بارے میں ایک افواہ اڑائی گئی کہ انہوں نے آسٹریلیا میں کوئی جزیرہ خریدا ہے۔ حالانکہ حقیقتاً دنیا میں کہیں بھی اس جزیرے کا کوئی وجود نہیں اور اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد سے جنرل (ر) کیانی ایک دن بھی بیرونِ ملک نہیں گئے، وہ راولپنڈی میں اپنے گھر میں رہتے ہیں۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ افواجِ پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے کس حد تک پراپیگنڈہ ہو رہا ہے۔
دشمن سالانہ اربوں ڈالر اس انفارمیشن وارفیئر پر خرچ کر رہا ہے۔ تاکہ عوام اور افواج کے درمیان تناؤ قائم کیا جا سکے۔
لیکن ہم نے اس سازش کو کامیاب نہیں ہونے دینا اپنے خاندان سے دور تپتے صحراؤں میں دن رات دشمن کی گولیوں کے نشانے پہ کھڑے ہو کر دھرتی ماں کی حفاظت پہ ڈٹے ان جوانوں کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑنا۔
ایک طاقت ور فوج ہی ایک مضبوط ملک کی علامت ہے۔
اللہ پاک پاکستان کو قائم و دائم رکھے۔ آمین
پاک فوج زندہ باد
پاکستان ہمیشہ پائندہ باد

Twitter id: @InvisibleFari_

Shares: