‏باغی ٹی وی کی آج دسویں سالگرہ ہے جو کہ آج ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈ پہ ہے الحمدللہ تو سوچا اس خوشی میں کوئی ارٹیکل ہی لکھ دوں تو معاشرتی موضوع پر ہی لکھنے کو دل کیا ۔۔۔!!!

شادی ایک مقدس بندھن ہے جس کو دونوں طرف سے پورے دل اور خوشی سے نبھایا جانا چاہئیے جس میں وفا ۔ایمانداری صاف نیت اس کی بنیاد ہو لیکن کچھ لوگ شارٹ کٹ سے اپنے مقاصد پورے کرنے کے لیے بھی یہ راستہ اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں ایسے لوگ کسی معافی کے قابل نہیں ہوتے ان کو اگر متاثرہ شخص سزا نہ بھی دے لیکن میں نے ایسے لوگوں پر اللہ کی بےآواز لاٹھی ضرور برستی دیکھی ہے۔۔۔!!
یہ ایک تلخ حقیقت ہے اگر داماد اپنی بیوی کے ساتھ اچھا ہے تو اس کی سرے عام تعریفیں کی جاتی ہیں اور اگر بیٹا بہو کے آگے پیچھے پھرے تو اسے زن مریدی کا طعنہ دیا جاتا ہے

بیٹی اور داماد کا رومانس تو بہت اچھا لگتا ہے لیکن بہو اور بیٹے کا رومانس بےشرمی لگتا ہےاگر بیٹے کو بہو کے ساتھ بیٹھے ہوئے ساس دیکھ لے تو اپنی 40 سال پرانی مثالیں دینی شروع کردیتی ہیں کہ ہم تو جب تک ہمارے ساس سسر ذندہ رہے کبھی ان کے سامنے بات بھی نہیں کرتے تھے ایک دوسرے کے سامنے ایک ساتھ بیٹھ کر یوں بےشرمی سے لاڈ کرنا تو بڑے دور کی بات ہے اور نئی نویلی دلہن دل ہی دل میں اس بات پر شرم سے پانی پانی ہوجاتی ہے وہ دلہن جس کو شادی سے پہلے ہمیشہ یہ کہا جاتا ہے اپنے اصلی گھر مطلب سسرال میں جاکر اپنے سارے شوق پورے کرنا اپنی مرضی کے فیشن کرنا جیسے دل کیا رہنا ۔(70 فیصد لڑکیوں کی بات بتارہی ہوں 30 فیصد وہ لڑکیاں ہوتی ہیں جو اچھی قسمت لیکر دنیا میں آتی ہیں بنا کسی امتحان کے سب کچھ پلیٹ میں سجا اسے ملتا ہے سسرال میں والدین کے گھر جیسا ماحول پیار ملتا ہے عزت ملتی ہے اور بنا محنت کے دنیا کی ہر آسائش ملتی ہے اور ان 30 فیصد لڑکیوں جیسی قسمت پانے کے لیے کچھ لڑکیوں کو اپنی آدھی ذندگی مشکل ترین حالت کا سامنا کرنے کے ساتھ انگاروں پر ایک طویل سفر کرنے کے بعد ملتی ہے) وہ دن جو میاں بیوی کے ایک دوسرے کے سمجھنے کے ہوتے ہیں لاڈ اٹھانے اٹھوانے کے ہوتے ہیں وہ دن سسرال والوں کے دل جیتنے میں صرف ہوجاتے ہیں سالوں سال لگ جاتے ہیں اس کوشش میں کوئی خوش قسمت لڑکی ہی ہوتی ہے جو اس امتحان میں سرخرو ہوتی ہے۔عمومآ لڑکی کی شادی 19سال سے بیس بائیس سال تک ہوجاتی ہے شادی شدہ ذندگی اس کے لیے خوبصورت خوابوں کے جیسی ہوتی ہے جہاں اس نے اپنے سارے ارمان خواب پورے کرنے کا سوچا ہوتا ہے وہ خوبصورت خواب اپنے ہم سفر کے ساتھ مل کر پورے کرنے ہوتے ہیں بجائے اس کے کہ وہ دو الگ الگ انسان ایک دوسرے سے جذباتی وابستگی پیدا کرنے کی کوشش کریں ہوتا کیا ہے لڑکی کے سسرال میں موجود کچھ لوگ لڑکی کو ذہنی طور پر اتنا ٹارچر کرتے ہیں کہ آخر انیس بیس سال کی لڑکی کے سب خواب مرجاتے ہیں لڑکی میں پچاس سالہ روح سرائیت کر جاتی ہے۔جو خواب اس نے اس خوبصورت بندھن میں بندھ جانے کے بعد کے سوچے ہوتے ہیں وہ خواب ٹوٹ جاتے ہیں یوں ایک کالج گرل دنوں میں 19 سالہ سے 50 سالہ عورت کی روح اپنے اندر محسوس کرنے لگتی ہے اور اپنا درد تکلیف اپنے والدین کو بھی نہیں بتاسکتی۔یوں درد سہتے سہتے اچھے وقت کے انتظار میں اپنی جوانی کے قیمتی سال ضائع کردیتی ہے پھر جب اچھا وقت آتا ہے تو اپنا مشکل وقت ایک فلم کی طرح اس کے دماغ کے ایک کونے میں ہمیشہ کے لیے سیو ہوجاتا ہے اب یہ اس لڑکی پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ ماضی میں خود پر جھیلی ہوئی تکلیفیں اپنی نئی نسل کو ان تکلیفوں سے بچانے کی کوشش کرتی ہے یا وہ یہ روائت جاری رکھتی ہے۔۔ یہ تو کہانی بیان کی مظلوم عورت کی ۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ۔

ہر پہلو کے دو رخ ہوتے ہیں بات دراصل یہ ہے کہ اگر عورت ایک جگہ مظلوم ہے تو دوسری طرف ایسی عورتیں بھی دیکھی جو ہر نعمت ہر سہولت میسر ہونے کے باوجود "ٹھنڈے دودھ کو پھونکیں "مارتی بھی دیکھیں لوگوں کی باتوں میں آکر اپنے مرد کا جینا حرام کردیتی ہیں ان کا سکون ختم کردیتی ہیں لایعنی باتوں سے ۔ہر بات میں جھوٹ بولتی ہے ۔ باوجود اس کے کہ اسی مرد نے انھیں زمین سے اٹھا کر تخت پر بٹھایا ہوتا ہے دنیا کی ہر سہولت دی ہوتی ہے بقول شاعر کے
"جن پتھروں کو ہم نے زباں بخشی تھی

جو ملی انھیں زباں تو وہ ہمیں پہ برس پڑے”

احسان فراموشی کی حد ختم کردیتی ہیں جب دیکھتی ہیں سب کچھ ہتھیا لیا ہے تو کوئی نہ کوئی بہانہ بناکر لڑجھگڑ کر نئی منزل کی تلاش میں نکل پڑتی ہیں ۔جب تک شوہر کے ساتھ رہتی ہیں گھر کو میدان جنگ بنائے رکھتی ہیں اچھے خاصے خوش مزاج شوہر کو نفسیاتی بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی ایسے شوہر کو جس میں اقدار ہیں، ناموس ہے، ایمان ہے۔ باوقار، با حیا، اور خوبرو ہے۔لیکن خودغرض اور کانوں کی کچی عورت ایسے نیک فطرت شوہر کو دکھ دینے سے پہلے ایک دفعہ بھی نہیں سوچتی کہ اس مرد کی وجہ سے مجھے معاشرے میں اتنی عزت ملی ہے لیکن اس کی آنکھوں میں خودغرضی کی ایسی پٹی بندھی جاچکی ہوتی ہے کہ کچھ بھی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب ہوکر رہ جاتی ہے ۔۔!! لیکن اللہ نے شائد مرد میں برداشت کرنے کی قوت کچھ ذیادہ ہی رکھی ہوئی ہے شائد اسی لیے قرآن مجید میں بھی عورت سے مرد کا ایک درجہ اوپر رکھا گیا ہے اس کا حوصلہ آئرن کی طرح سخت ہوتا ہے کہ ہر درد تکلیف برداشت کرنے کے باوجود جب آپ اس سے ملیں گے، تو آپ اس انسان کے لیے دل میں بےحد عزت محسوس کریں گے اس کی اعلی ظرفی آپکو متاثر کرے گی آپکو وہ انسان اپنی سچائی اور فیاضی کی وجہ سے پسند آئے گا اگرچہ اسے دھوکے ملے ہیں،درد ملا ہے تکلیف پہنچی ہے لیکن آپ اسے اللہ کا شکر ادا کرتے پائیں گے اور شکر ایک ایسا عمل ہے جس نے کیا اللہ نے اسے پھر اپنے خزانوں سے بےحد بےشمار نوازا ہے ہر مومن جانتا ہے کہ کوئی کتنا ہمارا بگاڑ سکتا ہے، اور کب تک بگاڑ سکتا ہے.جب تک اللہ نہ چاہے کوئی ہمارا بال بھی بیکا نہیں کرسکتا نہ ہمیں نقصان دے سکتا نہ نفع دے سکتا ہے ہم تو بس اس کے’کن” کے محتاج ہیں وہ ‘کن”کہہ دے . پلک جھپکتے ہی سب کچھ سنور جاتا ہے وہ کچھ اللہ عطا فرما دیتا ہے جو ایک بندے کے گمان میں بھی نہیں ہوتا بس اس پر یقین کامل رکھنا چاہئیے بےشک وہ اپنے بندے سے بےانصافی نہیں کرتا اس کو صبر کا بہترین انعام ایک اچھے باوفا ہمسفر کی شکل میں ضرور عطا فرماتاہے

Shares: