میاں داد کا چھکا تحریر-سید لعل حسین بُخاری

0
42

بھارت ہر شکست بُھلا سکتا ہے،مگر شارجہ کرکٹ گراؤنڈ میں آسٹریلیشیا کپ کے فائنل میں میچ کی آخری گیند پر جاوید میانداد کے لگاۓ گئے تاریخی چھکے سے ہونے والی ہار کبھی نہیں بھول سکتا۔
کافی عرصہ پہلے ہونے والا یہ یادگار میچ پاکستان اور بھارت کی کرکٹ تاریخ کا ٹرننگ پوائنٹ بھی تھا۔اس میچ کے بعد پاکستان کا بھارت سے ہارنے کا تسلسل بھی ٹوٹ گیا۔
شارجہ والا یہ میچ میری زندگی کا ناقابل فراموش اوریادگار میچ تھا۔جس کی ہر بال میں نے اپنے بلیک اینڈ وائیٹ ٹی وی پر براہ راست شارجہ سے دیکھی۔
میچ کی آخری بال پر پاکستان کو چار رنز درکار تھے۔اس سے قبل سیکنڈ لاسٹ بال پر پاکستان کے آف سپنر توصیف احمد نے جس طرح گرتے پاڑتے ،دوڑتے اور رن آؤٹ سے بال بال بچتے ہوۓسنگل لیکر سٹرائیک میاں داد کو فراہم کی۔اُسی وقت میں پانی کا تیسرا جگ ختم کر چکا تھا۔مگر پاوں کے تلووں سے پسینہ پھر بھی جاری تھا۔آخری بال کے لئے مزید پانی منگوانے کا ہوش ہی نہیں تھا۔
آخری بال سے پہلے میں مسلسل درود شریف کا ورد کئے جارہے تھا۔
ہر آنکھ ٹی وی سکرین پر تھم چُکی تھی۔پاکستان بھارت کا میچ ہو اور وہ بھی فائینل،جس کا فیصلہ میچ کی آخری گیند پر ہو رہا ہو ،پاکستان کی آخری وکٹ ہو۔تو آپ سوچ سکتے ہیں کہ میچ کے وہ لمحات کتنے سنسنی خیز ہوں گے !
بحرحال آخری بال پر بھارتی کپتان نے وکٹ کیپر اور باولر چتن شرماکے علاوہ تمام فیلڈرز باؤنڈی لائن پر کھڑے کر دیے تاکہ پاکستان کو مطلوبہ چار رنز کے حصول سے روکا جا سکے۔باونڈری نہ لگ سکے۔مگر بھارت کو شائد پتہ نہیں تھا کہ میں داد انکے ساتھ کیا کرنے والا ہے۔بلکہ سچی بات ہے کہ کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ آخری بال کیا گُل کھلانے والی ہےاور پھر اس بال پر وہ کچھ ہو گیا،جو ہمیشہ ان کے لئے ڈراؤنا خواب رہے گا۔وہ جب جب اس میچ کو یاد کریں گے۔تب تب جاوید میاں داد ایک سُپر مین کی طرح ان کے سامنے آجاۓ گا۔
آخری بال کے لئے چتن شرما نے سٹارٹ لیا۔جاوید میانداد کریز پر اپنے ترچھے سٹانس کے ساتھ موجود۔سٹیڈیم میں قبرستان والی خاموشی۔ایسا لگ رہا تھا،جیسے سانسیں رُک سی گئی ہوں۔
پاکستانیوں کی آنکھیں ٹی وی سکرینز پر۔ہاتھ فضا میں بلند۔اللہ پاک سے پُر نم آنکھوں کے ساتھ دعائیں شروع۔
شرما آۓ۔میاں داد نے پوری طاقت سے بلا گُھمایا۔
مایہ ناز کمنٹیٹر افتخار احمد کی آواز بلند ہوئ،
This is a six.Pakistan has won.Miandad the hero of the moment.the hero of the match.
بس کمنٹیٹر کے اسی فقرے کے ساتھ اللہ اکبر کی آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئیں۔لوگ خوشی سے سڑکوں پر نکل آۓ۔میں نے بھی روتے روتے سب گھر والوں کو گلے لگایا اور پھر اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو گیا کہ اُس نے میرے وطن کو عزت بخشی۔
سارے کھلاڑی شارجہ سٹیڈیم کا چکر لگا رہے تھے۔مگر مرکز نگاہ صرف ایک کھلاڑی تھا،جس نے تن تنہا میدان پاکستان کے نام کر دیا۔جسے دنیا مرد بحران اور ونڈر بواۓ کے نام سے جانتی تھی۔جی ہاں وہ جاوید میاں داد جس نے کم عمری میں ٹیسٹ ڈیبیو کا ریکارڈ قائم کرنے کے بعد پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔وہ ہمیشہ ایسے وقت بیٹننگ کے لئے آتا،جب حسب معمول پاکستان کی دو وکٹیں گر چکی ہوتیں۔میانداد کے کریز پر آنے کے بعد مخالف ٹیم کے لئے اسے آؤٹ کرنا کبھی بھی آسان نہ ہوتا۔وہ اس وقت کا نہ صرف سنگل رن لینے والا دنیا کابہترین کھلاڑی تھا بلکہ ہارڈ ہٹنگ کا بھی ماسٹر تھا۔
جاوید میاں داد ہمیشہ پاکستان کے لئے کھیلا،وہ کبھی بھی اپنی زات کے لئے نہیں کھیلا۔اپنے طویل کیرئر میں اس نے میچز کے دوران کبھی روزہ نہیں چھوڑا۔اور اسکے بعض دیگر ہم عصر کھلاڑیوں کے مطابق وہ ایک تہجد گزار شخص تھا۔
اس نے پاکستان ٹیم کے وسیع تر مفاد میں قیادت کی قربانی دی۔پاکستان کرکٹ بورڈ کی مکمل حمایت کے باوجود وہ عمران خان کو کپتانی دینے پر رضامند ہو گیا۔
اس نے اپنے کیرئر میں پاکستان کے ایک عظیم ترین کپتان عمران خان کی بطور کپتان فتوحات میں ہمیشہ مرکزی کردار ادا کیا۔وہ ہر مشکل میں عمران خان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کے کھڑا رہا۔
عمران خان کی کپتانی میں جیتے گئے 1992کے ورلڈ کپ میں جاوید میاں داد نے اہم ترین کردار ادا کیا۔
تقریبا” ہر میچ میں رنز کئے ۔اور مشکل ترین میچز میں فیصلہ کن اننگز کھیل کر پاکستان کے جیتنے کی بنیاد رکھی۔عمران خان اور جاوید میاں داد اپنے وقتوں کے سُپر سٹارز تھے۔
انکی دوستی کرکٹ کے میدانوں کے باہر بھی جاری رہی۔
عمران خان کی طرف سے کینسر ہسپتال کے لئے چلائ گئی چندہ مہم ہو یا عمران خان کی بطور سیاستدان انٹری۔
جاوید میاں داد ہمیشہ اسکے ساتھ کھڑانظر آیا ۔میاں داد نے کبھی اس چیز کو یاد نہیں رکھا کہ اسے پاکستان ٹیم کی کپتانی عمران خان کی وجہ سے چھوڑنا پڑی۔
لیجنڈ جاوید میاں داد کی یہی ادا اسے دوسرے ہم عصر کھلاڑیوں سے منفرد کر گئی کہ وہ ہمیشہ پاکستان کے لئے کھیلا،وہ کبھی پاکستان سے نہیں کھیلا#

@lalbukhari

Leave a reply