مینا کماری ناز،اداکارہ و شاعرہ
یوں تیری رہگزر سے دیوانہ وار گزرے
کاندھے پہ اپنے رکھ کے اپنا مزار گزرے
مینا کماری ناز
اداکارہ و شاعرہ
یوم وفات : 31 اگست 1972
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آغا نیاز مگسی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برصغیر کی نامور اداکارہ شاعرہ مینا کماری ناز جنہیں” ملکہ غم ” بھی کہا جاتا ہے ان کا اصل نام ماہ جبیں ہے ۔ وہ یکم اگست 1932 میں بمبئی میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد کا نام علی بخش اور والدہ کا نام نیپرو بھاوتی ٹیگور تھا مسلمان ہونے کے بعد ان کا اسلامی نام اقبال بیگم رکھا گیا۔ مینا کماری نے 6 سال کی عمر میں چائلڈ اسٹار کی حیثیت سے ” لیدر فیس” فلم سے اپنی اداکاری کا آغاز کیا ۔ وہ تین بہنیں تھیں ان کی دوسری بہنوں کا نام خورشید اور مدھو تھا۔ فلم ڈائریکٹر وجے بھٹ نے ان کو مینا کماری کا فلمی نام دیا تھا جبکہ مینا کماری نے شاعری میں اپنے لیے ناز تخلص اختیار کیا ۔ 1952 میں انہوں نے فلمساز کمال امروہوی سے دوسری بیوی کی حیثیت سے شادی کی لیکن محبت کی یہ شادی کامیاب نہیں ہو سکی۔ چند برس بعد ہی ان کے درمیان علیحدگی ہو گئی جس کے بعد مینا کماری نے دوسری شادی نہیں کی ۔ کمال امروہوی کی بیوفائی کے بعد مرد حضرات پر ان کا اعتبار نہیں رہا۔ انہوں نے بقیہ تمام عمر تنہائی ، درد وغم سہتے ، اداکاری اور شاعری کرتے گزار دی۔ شاعری میں انہوں نے گلزار سے اصلاح لی تھی ۔ مینا کماری نے کل 94 فلموں میں کام کیا انہیں فلم ” بیجو باورا” سے بے پناہ شہرت اور پذیرائی ملی ۔ مینا کماری کو ہندوستان کی پہلی خاتون اداکارہ فلم فیئر ایوارڈ حاصل کرنے کا منفرد اعزاز حاصل ہوا۔ 31 مارچ 1972 میں ان کی وفات ہوئی ۔ ان کے انتقال کے بعد ” چاند” کے عنوان سے ان کا شعری مجموعہ شائع ہوا۔
منتخب کلام
عیادت ہوتی جاتی ہے عبادت ہوتی جاتی ہے
مرے مرنے کی دیکھو سب کو عادت ہوتی جاتی ہے
نمی سی آنکھ میں اور ہونٹ بھی بھیگے ہوئے سے ہیں
یہ بھیگا پن ہی دیکھو مسکراہٹ ہوتی جاتی ہے
تیرے قدموں کی آہٹ کو یہ دل ہے ڈھونڈتا ہر دم
ہر اک آواز پر اک تھرتھراہٹ ہوتی جاتی ہے
یہ کیسی یاس ہے رونے کی بھی اور مسکرانے کی
یہ کیسا درد ہے کہ جھنجھناہٹ ہوتی جاتی ہے
کبھی تو خوبصورت اپنی ہی آنکھوں میں ایسے تھے
کسی غم خانہ سے گویا محبت ہوتی جاتی ہے
خود ہی کو تیز ناخونوں سے ہائے نوچتے ہیں اب
ہمیں اللہ خود سے کیسی الفت ہوتی جاتی ہے
……………….
آبلہ پا کوئی اس دشت میں آیا ہوگا
ورنہ آندھی میں دیا کس نے جلایا ہوگا
ذرے ذرے پہ جڑے ہوں گے کنوارے سجدے
ایک اک بت کو خدا اس نے بنایا ہوگا
پیاس جلتے ہوئے کانٹوں کی بجھائی ہوگی
رستے پانی کو ہتھیلی پہ سجایا ہوگا
مل گیا ہوگا اگر کوئی سنہری پتھر
اپنا ٹوٹا ہوا دل یاد تو آیا ہوگا
خون کے چھینٹے کہیں پوچھ نہ لیں راہوں سے
کس نے ویرانے کو گل زار بنایا ہوگا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یوں تیری رہگزر سے، دیوانہ وار گزرے
کاندھے پہ اپنے رکھ کے، اپنا مزار گزرے
.
بیٹھے ہیں راستے میں دل کا کھنڈر سجا کر
شاید اسی طرف سے، اک دن بہار گزرے
.
دار و رسن سے دل تک، سب راستے ادھورے
جو ایک بار گزرے، وہ بار بار گزرے
بہتی ہوئی یہ ندیا، گھلتے ہوئے کنارے
کوئی تو پار اترے، کوئی تو پار گزرے
.
مسجد کے زیر سایہ، بیٹھے تو تھک تھکا کر
بولا ہر اک منارا، تجھ سے ہزار گزرے
.
قربان اس نظر پہ، مریم کی سادگی بھی
سائے سے جس نظر کے، سو کردگار گزرے
.
تو نے بھی ہم کو دیکھا، ہم نے بھی تجھ کو دیکھا
تو دل ہی ہار گزرا، ہم جان ہار گزرے