مجھ سے ایک کہانی سننے آیا تھا اور مجھ میں وہ اپنا قصہ چھوڑ گیا

اردو شاعری سے شغف ان کو بچپن ہی سے رہا ہے
0
127
poet

مجھ سے ایک کہانی سننے آیا تھا
اور مجھ میں وہ اپنا قصہ چھوڑ گیا

عائشہ ایوب

پیدائش:18 جنوری 1983
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عائشہ ایوب نئی نسل کی شاعرات میں نمایاں مقام رکھتی ہیں۔ وہ 18 جنوری 1983ء کو ممبئی میں پیدا ہوئیں ۔ ابتدائی تعلیم ممبئی اور سعودی عرب میں حاصل کی۔ وہ گزشتہ کئی سال سے لکھنؤ میں مقیم ہیں اورمختلف ادبی اور سماجی تنظیموں سے وابستہ رہ کر اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں اردو شاعری سے شغف ان کو بچپن ہی سے رہا ہے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مخاطب فاؤنڈیشن کی بنیاد ڈالی اور اس کے ذریعے اردو کو فروغ دینے میں پیش پیش رہتی ہیں۔

جہاں تک عائشہ کی شاعری کا تعلق ہے انہوں نے اپنے تجربات اور احساسات کو خوبصورت انداز میں شعری پیراہن میں ڈھال کر اظہار کے وسیلے کو احساس کی گرمی سے مالامال کیا اور اپنی آزاد و پابند شاعری میں احتجاج کے لہجے کے ساتھ نسائی احساسات و جذبات کو بھی خوبصورتی کے ساتھ قلمبند کیا ہے۔

غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عجلت میں وہ دیکھو کیا کیا چھوڑ گیا
اپنی باتیں اپنا چہرہ چھوڑ گیا

مجھ سے ایک کہانی سننے آیا تھا
اور مجھ میں وہ اپنا قصہ چھوڑ گیا

خواب زدہ تھا باتیں کرتا رہتا تھا
رونے والوں کو بھی ہنستا چھوڑ گیا

دل کے اک کونے میں آہیں رکھی ہیں
جانے والا اپنا حصہ چھوڑ گیا

جتنی یادیں لے کے ہم کو مرنا تھا
اتنی سانسیں دے کے زندہ چھوڑ گیا

دیواروں سے لگ کے رو لیتے ہوں گے
جن کو ان کا سایا تنہا چھوڑ گیا

کمرے سے جس دن اس کی تصویر ہٹی
آئینے نے دیکھ کے پوچھا چھوڑ گیا

غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر وہ خود ہی بچھڑ جانے کی دعا کرے گا
تو اس سے بڑھ کے مرے ساتھ کوئی کیا کرے گا
سنا ہے آج وہ مرہم پہ چوٹ رکھے گا
مجھی سے مجھ کو بھلانے کا مشورہ کرے گا
ترس رہی ہیں یہ آنکھیں اس ایک منظر کو
جہاں سے لوٹ کے آنے کا دکھ ہوا کرے گا
اگر یہ پھول ہے میری بلا سے مرجھائے
اگر یہ زخم ہے مالک اسے ہرا کرے گا
میں جانتی ہوں کہ جتنا خفا بھی ہو جائے
وہ میرے شہر میں آیا تو رابطہ کرے گا
میں اس سے اور محبت سے پیش آؤں گی
جو میرے حق میں کوئی عائشہؔ برا کرے گا

غزل
۔۔۔۔۔
تم سے آتا نہیں جدا ہونا
تم مری آخری سزا ہونا
جس کو تم روز دکھ ہی جاتے ہو
اس کی قسمت ہے آئنہ ہونا
اس کے ہونے کی یہ گواہی ہے
ان درختوں کا یوں ہرا ہونا
کتنا مشکل ہے بچپنا اب تو
کتنا آسان تھا بڑا ہونا
میں تو حل ہوں کسی کی مشکل کا
مجھ کو آیا نہ مسئلہ ہونا

غزل
۔۔۔۔۔
خوشی میں یوں اضافہ کر لیا ہے
بہت سا غم اکٹھا کر لیا ہے
ہمیں ہم سے بچانے کون آتا
سو اب خود سے کنارہ کر لیا ہے
مری تنہائی کا عالم تو دیکھو
زمانے بھر کو یکجا کر لیا ہے
تجھے جانے کی جلدی تھی سو خود سے
ترے حصے کا شکوہ کر لیا ہے
نہیں مانگیں گے تجھ کو اب دعا میں
خدا سے ہم نے جھگڑا کر لیا ہے
ترستے ہیں جسے ملنے کی خاطر
اسی کو اپنی دنیا کر لیا ہے
وہ کیا ہے عشق ہم نے اب کی جاناں
تکلف میں زیادہ کر لیا ہے
اندھیروں میں تو رکھتے ہی تھے خود کو
اجالوں میں بھی تنہا کر لیا ہے
کھلے پنجرے میں بھی جس کو ہے وحشت
یہ دل ایسا پرندہ کر لیا ہے

Leave a reply