بھارت میں منکی پاکس وائرس کی تشخیص ،علاج کی نئی تکنیک دریافت
بھارتی سائنسدانوں نے منکی پاکس وائرس (MPV)، جو حال ہی میں ایمپاکس کے نام سے جانا جاتا ہے، کی تشخیص اور علاج کے لیے ایک نیا طریقہ دریافت کیا ہے۔
باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق یہ تحقیق اس وائرس کی وائرولوجی کو سمجھنے اور اس کی تشخیص و علاج کے لیے مؤثر حکمت عملی تیار کرنے کے لیے کی گئی ہے۔گزشتہ تین سالوں میں ایمپاکس وائرس دو بار بین الاقوامی صحت ایمرجنسی قرار دیا جا چکا ہے۔ اس وائرس کے پھیلاؤ کی غیر متوقع نوعیت، منتقلی کے طریقوں اور علامات کی پیچیدگی کے باعث اس کے بارے میں مزید تحقیق ضروری ہے۔ایمپاکس ایک ڈبل اسٹرینڈ ڈی این اے (dsDNA) وائرس ہے، جس کی تشخیص کے لیے پولیمریز چین ری ایکشن (PCR) عام طور پر استعمال کی جاتی ہے۔ تاہم، روایتی طریقے بعض اوقات غیر مخصوص نتائج دیتے ہیں، جو تشخیصی عمل میں مشکلات پیدا کرتے ہیں۔
نئی تکنیک: جی-کوآڈرپلکس (GQ)
سائنسدانوں نے ایمپاکس وائرس کے جینوم میں ایک غیر روایتی ڈی این اے ساخت، جی-کوآڈرپلکس (GQ)، کی شناخت کی ہے۔ یہ ساخت گوانین سے بھرپور سیکوینسز پر مبنی ہوتی ہے، جو ہائیڈروجن بانڈنگ کے ذریعے منفرد جی-ٹیٹراڈز بناتی ہیں۔ جی-کوآڈرپلکس کو نشانہ بنا کر ایک مخصوص فلوروسینٹ پروب تیار کی گئی ہے جو وائرس کی درست تشخیص میں مدد دیتی ہے۔
تحقیق کے نتائج
سائنسدانوں نے ایمپاکس وائرس کے جینوم میں چار مخصوص جی-کوآڈرپلکس سیکوینسز کی نشاندہی کی ہے، جو دیگر وائرسز اور انسانی جینوم میں موجود نہیں ہیں۔پروب، جسے BBJL کہا جاتا ہے، ان جی-کوآڈرپلکس سیکوینسز کے ساتھ منسلک ہو کر فلوروسینٹ سگنل کو 250 گنا بڑھا دیتا ہے۔یہ تکنیک SARS-CoV-2 وائرس کی تشخیص کے لیے استعمال ہونے والے پلیٹ فارم کی توسیع ہے۔
طبی اثرات
یہ نئی تحقیق نہ صرف ایمپاکس وائرس کی بہتر تشخیص کے لیے مددگار ہے بلکہ اس کے ذریعے وائرس کے علاج کے لیے نئی راہیں بھی کھل سکتی ہیں۔ جی-کوآڈرپلکس جیسے غیر روایتی ڈی این اے اسٹرکچرز کے استعمال سے ایسی تکنیکیں تیار کی جا سکتی ہیں جو موجودہ تشخیصی مسائل جیسے کہ غیر مخصوص نتائج کو ختم کر سکیں۔بھارتی سائنسدانوں کی یہ کامیابی عالمی سطح پر وائرولوجی کے میدان میں ایک اہم پیش رفت ہے اور اس سے ایمپاکس وائرس کی روک تھام اور علاج کے لیے نئے امکانات پیدا ہوں گے۔
گنڈا پور کا قافلہ صوابی سے روانہ، بشری بی بی ہمراہ