مودی بدل گیا ، بھارت اور پاکستان کا رومانس ، انجام کیا ہوگا ؟ سنیے مبشر لقمان کی زبانی

0
42

مودی بدل گیا ، بھارت اور پاکستان کا رومانس ، انجام کیا ہوگا ؟ سنیے مبشر لقمان کی زبانی

باغی ٹی وی : سینئر اینکر پرسن مبشر لقمان نے اپنے وی لاگ میں کہا ہےکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان گزشتہ چند روز میں کچھ برف پگھلی ہے ۔ اور اس سلسلے میں پاکستان نے بطور ریاست ذمہ دار ملک ہونے کا ثبوت دیا ہے ۔ ہم نے دیکھا پہلے ایل او سی پر سیز فائر ہوا۔
پھر بھارت نے عمران خان کے جہاز کو اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دی اور پھر پاکستان کی ایک نیزہ باز ٹیم ایک بین الاقوامی مقابلے میں شرکت کے لیے بھارت آئی۔ پھر آرمی چیف جنرل باجوہ کا ایک بیان بھی پاک بھارت امن کے حوالے سے آیا ۔
پھر وزیراعظم عمران خان کی کرونا میں مبتلا ہونے کی خبر پر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے سوشل میڈیا پر پیغام بھیجا۔ اس طرح دونوں حریف ممالک کے مابین مثبت اشاروں کا سلسلہ شروع ہوا۔اوراب پاکستان بھارت آبی مذاکرات ہو رہے ہیں۔ جس کا ایک دور آج ہوچکا ہے اور دوسرا اب کل ہوگا ۔

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ سفارتی سطح پر ان تمام معاملات کو دونوں ممالک کے درمیان ٹریک ٹو مذاکرات کی کڑی قرار دیا جا رہا ہے۔ سفارتی ماہرین کے مطابق ان مثبت اقدام میں متحدہ عرب امارات کا کردار ہے تاکہ دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان جاری چپقلش کم ہو سکے۔ اس حوالے سے امریکہ ذرائع ابلاغ بھی رپورٹ کر چکا ہے ۔ امریکی نشریاتی ادارے نے یہ بھی کہا ہے کہ جنگ بندی دونوں ممالک کے مابین پائیدار امن کے وسیع روڈ میپ کا آغاز ہے ۔ اسکے بعد کے مراحل میں دونوں ممالک کے سفیروں کا تقرر ، تجارت کی بحالی اور کشمیر کا حتمی فیصلہ ہوگا ۔ ماضی کے مقابلے میں یہ کوششیں اس لیے مستحکم ہیں کہ جوبائیڈن افغانستان میں قیام امن کی کوششیں کررہے ہیں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے ملڑی حکام کے درمیان 2003کے سیز فائر معاہدے نے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا تھا اور اس کے معاہدے پر عمل درآمد کے اعلان کے چوبیس گھنٹوں بعد متحدہ عرب امارات کے اعلی سفارتکار ایک روزہ دورے پر نئی دہلی روانہ ہوئے تھے ۔ اجلاس میں وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زید نے بھارتی ہم منصب ایس جے شنکر کےساتھ جو بات چیت کی اس کا اشارہ اس طرح دیا کہ انھوں نے مشترکہ مفاد کے تمام علاقائی اور بین الاقوامی امور پر تبادلہ خیال کیا ۔

اس تمام صورتحال پر کانگریس کے رہنما اور رکن پارلیمنٹ ششی تھرو نے ٹویٹ میں کہا ہے کہ اگر یہ میڈیا قیاس آرائی نہیں اور متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ عبداللہ بن النہیان بھارت اور پاکستان کے مابین کسی بڑے معاہدے کو مکمل کر پائے تو وہ نوبیل انعام کے مستحق ہونگے۔ ویسے تعلقات میں نرمی ایک دم سے نہیں ہوئی بلکہ گذشتہ برس اکتوبر میں پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے بھارتی صحافی کو انٹرویو دے کرانکشاف کیا تھا کہ بھارت بات چیت شروع کرنے کا خواہاں ہے۔ تاہم بعد ازاں بھارتی دفتر خارجہ نے اس بیان کی تردید کر دی۔

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ نومبر 25، 26کو بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے امارات کا دو روزہ دورہ کیا۔ اس کے چند دنوں بعد ہی دسمبر میں بھارتی آرمی چیف کا متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کا چھ روزہ دورہ ہوا۔ بھارتی آرمی چیف کی واپسی کے بعد پاکستانی وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے17 دسمبر کو امارات کا دو روزہ دورہ کیا تھا۔
متحدہ عرب امارات سے پہلے سعودی وزیر خارجہ بھی ایک انٹرویو میں اس بات کا برملا اظہار کرچکے ہیں کہ سعودی عرب نے بھی دونوں ممالک کو ٹیبل پر بیٹھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کے وزیر مملکت عادل الجبیر نے گذشتہ برس مارچ میں بھی کہا تھا کہ سعودی عرب بھی پاک بھارت تناؤ کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ امریکہ، یورپی یونین، امارات والے سب کوئی نہ کوئی کردار ادا کر رہے ہیں۔ امریکہ کی کوشش ہے کہ سفارتی تعلقات
110
کی مکمل تعداد اور باقاعدہ ہائی کمشنر لیول کے ہوں جبکہ یورپی یونین تجارتی تعلقات کے لیے کوشاں ہے۔ ریل، روڈ، ہوائی راستے کھول کر عوامی روابط کھولنا بھی تجاویز میں شامل ہے۔ ابھی تک بھارتی اور پاکستانی وزارت خارجہ نے امارات کے کسی قسم کے کردار کے حوالے سے کوئی ردعمل نہیں دیا۔جبکہ یہ بھی اطلاعات ہیں آج یا کل دفتر خارجہ پاکستان بھی اس حوالے سے ریاستی موقف بارے واضح طور پر بتائے گا ۔ اعلیٰ سفارتی حکام کا کہنا ہے دوشنبے میں 30
مارچ کو ہارٹ آف ایشیا وزرائے خارجہ سطح کی کانفرنس ہے۔ پاک بھارت وزرائے خارجہ کی ممکنہ ملاقات سمت کا تعین کر دے گی کہ پاکستان بھارت تعلقات کس طرف جائیں گے۔

youtu.be/c-cQ37Fu9CY

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ اب بہت سے لوگ اس جانب بھی اشارہ کررہے ہیں کہ یہاں صرف متحدہ عرب امارات کا کردار نہیں بلکہ امریکہ کا کردار بھی کسی حد تک ہے اور وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قومی سلامتی معید یوسف بھی بیک ڈور رابطوں میں فعال رہے ہیں۔ اور یہ دو طرفہ تھا یعنی صرف پاکستان ہی نہیں امریکہ نے بھارت پر بھی اپنا اثر رسوخ استعمال کیا ہے ۔

پر بہت سوں کا ماننا ہے کہ مسئلہ گھوم کر پھر وہیں پہ آ جائے گا کہ مذاکرات کر کے کیا حاصل کرنا ہے کیونکہ کشمیر اصل مسئلہ ہے۔ بھارت تو پہلے بھی یہی چاہتا ہے کہ پہلے دوستی کریں۔ مسئلے بعد میں خود حل ہو جائیں گے۔ لیکن پاکستان کا موقف ہے کہ پہلے دیرینہ مسئلہ حل ہو۔ پھر دوستی کریں گے۔ جب فریم ورک بنے گا تو بھارت سخت پوزیشن لے گا اور پاکستان سے رعایت مانگے گا۔ یہ اتنا آسان معاملہ نہیں ہے جتنا نظر آ رہا ہے کیونکہ بھارت کشمیر پر بات نہیں کرے گا تو معاملہ پھر آگے کیسے بڑھے گا۔ ابھی آج ہونے والے پاک بھارت انڈس واٹر کمشنرزکے مذاکرات کو دیکھ لیں ۔ پاکستانی وفد نے مقبوضہ کشمیر میں پاکستانی دریاﺅں پر پن بجلی منصوبوں پر اعتراضات اٹھائے تو بھارتی وفد حقائق نظراندازکرکے میں نہ مانوں کی گردان کرتا رہا۔ بھارتی وفد کی ضد ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں پن بجلی منصوبوں کی تعمیر بھارت کا حق ہے ،منصوبوں کی تعمیر اور ڈیزائن سندھ طاس معاہدے کے عین مطابق ہے ۔

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ اب سوال یہ بھی ہے کہ بھارت پاکستان کے تعلقات اگر امن کی جانب رواں دواں ہیں تو دونوں ممالک کے ہائی کمشنروں کی اپنے سٹیشنوں پر واپسی کب ہو گی؟
اس وقت دونوں ممالک کے ہائی کمیشن میں عملے کی تعداد55 ہے۔ گذشتہ برس جون میں بھارت نے عملہ
50فیصد کرنے کا نوٹفیکیشن جاری کیا تھا جس کے بعد پاکستان نے بھی دہلی سے اپنا
50 فیصد عملہ واپس بلا لیا تھا۔اگر آپ تھوڑا پیچھے جائیں تو
2003میں بھی سیز فائر کے معاہدے سے تعلقات میں بہتری شروع ہوئی تھی اور 2004 میں سارک سربراہی کانفرنس اسلام آباد میں منعقد ہوئی۔ اب بھی اسی طرح کی پیش رفت ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے جس کی وجہ سے تعطل کا شکار سارک سربراہی کانفرنس اسلام آباد میں ممکن ہونے کا امکان ہے۔

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ مگر آنے والے دنوں میں یہ واضح ہو گا کہ پانچ اگست کے بعد کی صورت حال سے مذاکرات شروع ہوں گے یا پانچ اگست سے پہلے۔ اس سارے معاملے میں بنیادی سٹیک ہولڈر کشمیری ہیں۔ اور کسی نہ کسی اسٹیج پر ان کو شامل کرنا ہی پڑے گا ۔ ابھی ہمیں ان مذاکرات کا خیر مقدم کرنا چاہیے لیکن سوالات یہ ابھرتے ہیں کہ مذاکرات کے لیے روڈ میپ کیا ہو گا اور تعلقات کی بحالی کے لیے پاکستان کو کیا قیمت دینی پڑے گی؟

Leave a reply