مودی کی نئی گھناؤنی چال. تحریر : نوید شیخ

۔ مودی کی زیرصدارت مسئلہ کشمیر پر نام نہاد آل پارٹیز کانفرنس ناکام ہو گئی ہے ۔ کیونکہ کانفرنس میں کشمیری کٹھ پتلی لیڈران عمرعبداللہ اور محبوبہ مفتی بھی پھٹ پڑے ہیں اور انھوں نے بھارت کی کشمیر پالیسی کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔ سابق کٹھ پتلی وزیراعلیٰ عمرعبداللہ نے کہا ہے کہ کشمیریوں کا بھارت کے ساتھ اعتماد ٹوٹ چکا ہے۔ کشمیر کی ریاستی حیثیت کی بحالی تک ہماری لڑائی جاری رہے گی۔ وادی میں نئی حلقہ بندیاں بھی ہمیں قبول نہیں۔

۔ اسی طرح سابق کٹھ پتلی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھی کہا ہے کہ پانچ اگست کو غیرقانونی طریقے سے دفعہ 370 کو آئین سے حذف کیا گیا۔ ہم نے مودی سے کہا ہے کہ جب طالبان سے بات ہوسکتی ہے تو پاکستان کے ساتھ بھی بات چیت کرنی چاہیے۔ ۔ حقیقت میں مودی سرکار نے عالمی دبائو کو ٹالنے کیلئے کشمیری لیڈران کو آل پارٹیز کانفرنس کا دانہ ڈالا مگر بھارتی کٹھ پتلی قیادت بھی کشمیر کی آزادی کے برعکس کوئی بات کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوئی۔ جس ’’ریاست‘‘ کو اب ’’بحال‘‘ کرنے کی تیاری ہورہی ہے اسے لداخ سے الگ کردیا گیا ہے۔وہ دلی سے براہِ راست چلائی Union Territoryہی رہے گا یعنی
’’وفاق کے زیر انتظام‘‘ علاقہ۔۔ لداخ سے الگ کئے مقبوضہ جموں وکشمیر کو اب درحقیقت ایک صوبے کی حیثیت میں ’’بحال ‘‘ کیا جائے گا جو آئینی اعتبار سے بھارت کے دیگر صوبوں کی طرح اس ملک کا
’’اٹوٹ انگ‘‘ہوگا۔۔ بھارتی آئین کے آرٹیکل 370کے تحت جموں وکشمیر کو فراہم ہوئی ’’خصوصی حیثیت‘‘ اب بحال نہیں ہوگی۔ اس طرح اپنے طور بھارت کشمیر کے دیرینہ مسئلہ کو ’’حل‘‘ کردے گا۔

۔ یوں باقی ماندہ مقبوضہ کشمیر کی اپنی قانون ساز اسمبلی ہو گی اور وہاں مرکزی حکومت کا مقرر کردہ لیفٹیننٹ گورنر تعینات ہو گا۔ لداخ کو مرکز کے زیر انتظام ایسا علاقہ قرار دیا گیا ہے جس کی اپنی کوئی اسمبلی نہیں ہو گی۔ بھارت کا منصوبہ یہ ہے کہ لداخ میں ہندو باشندوں کو ملک کے دوسرے علاقوں سے لا کر بسایا جائے۔ نریندر مودی اور امیت شاہ نے اے پی سی میں جس واحد معاملے پر بات کی وہ مقبوضہ کشمیر میں نئی حلقہ بندیوں سے متعلق مشاورت ہے۔ بھارت کا خیال ہے کہ حلقہ بندیاں اس طریقے سے کی جائیں کہ مخصوص علاقوں میں ہندو ووٹر اکثریت میں ہوں۔ بھارت حلقہ بندیوں کے معاملے پر الگ جبر کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ بھارتی آئین کے تحت 2026ء سے پہلے نئی حلقہ بندیاں نہیں ہو سکتیں۔ مودی حکومت نے گزشتہ برس آسام میں جب مرضی کی حلقہ بندیوں کی کوشش کی تو اسے مقامی سطح پر سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ اب مودی اسی آئینی خلاف ورزی کو مقبوضہ کشمیر میں متعارف کرانے کی کوشش میں ہے تاکہ کشمیر کو مختلف حصوں میں تقسیم کر کے بین الاقوامی برادری کو دھوکہ دیا جا سکے۔ بھارت اس طرح کے منصوبے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کئے گئے استصواب رائے کے وعدے کے متبادل کے طو پر بروئے کار لانے کا خواہاں ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کشمیر کے متعلق بھارت کے عزائم کسی لحاظ سے خیر پر مبنی نہیں۔

۔ صورتحال یہ ہے کہ دو سال کے دوران ہزاروں افراد کو بھارت کے مختلف علاقوں سے لاکر کشمیر میں آباد کیا گیا ہے۔ کشمیریوں کے خلاف مسلسل آپریشن ہوئے ہیں۔ نوجوانوں کو ماورائے عدالت قتل کیا جا رہا ہے۔ کشمیریوں کی املاک کو نذر آتش کیا جا رہا ہے۔ باغات کو کاٹا جا رہا ہے اور دکانوں کو منہدم کرنے کی پالیسی اختیار کر کے روزگار تباہ کئے جا رہے ہیں۔۔ دوسری جانب افغانستان کی بدلتی صورت حال اور امریکی رویے میں تبدیلی نے مودی حکومت کو مجبور کیا ہے کہ وہ پاکستان سے کشمیر پر مذاکرات کا سلسلہ بحال کرے۔ مودی مذاکرات سے قبل کشمیر کا معاملہ اس حد تک الجھا دینا چاہتے ہیں کہ مذاکرات میں اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی بجائے مودی حکومت کے اقدامات زیر بحث رہیں۔ مودی کشمیر پر قبضہ برقرار رکھنے کی منصوبہ بندی کے لئے اے پی سی جیسے اقدامات کو استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ ۔ یوں بھارت کا خیال ہے کہ یہ بین الاقوامی مداخلت کا مسئلہ نہیں رہے گا۔ مودی چاہے جتنی بھی پلاننگ کرلے مگر یہ تو آنے والا وقت بتائے گا کہ اس کے یہ منصوبے کتنے کامیاب ہوتے ہیں ۔ ۔ اس نام نہاد کانفرنس میں بھارت نواز آٹھ پارٹیوں کے 14رہنمائوں نے شرکت کی جبکہ کانفرنس میں کشمیریوں کی اصل نمائندہ حریت قیادت کو نظرانداز کردیا گیا۔

۔ جبکہ مودی نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کشمیر میں انتخابات کے بعد کشمیر کی ریاستی حیثیت بحال کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ جو کہ ایک ڈھکوسلا ہے ۔ دلاسا ہے ۔ بالکل ایسا ہی ہے کہ یہ کرلو تو ریاستی حیثیت بحال کر دیں گے ۔ یعنی مودی نے ایک اور ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کی سازش رچ دی ہے ۔ ۔ کیونکہ اگر کشمیریوں کو یہ بھارتی فیصلہ قبول ہوتا تو وہ کٹھ پتلی اسمبلی کے ہر انتخاب کے بائیکاٹ کا راستہ اختیار نہ کرتے اور نہ ہی وہ بھارتی تسلط سے آزادی کی جدوجہد جاری رکھتے۔۔ اس طرح مودی سرکار کی کشمیریوں کو تقسیم کرنے کی سازش بھی کامیاب نہیں ہو سکی۔ کشمیریوں کی منزل درحقیقت مقبوضہ وادی کی آئینی حیثیت کی بحالی نہیں بلکہ بھارتی تسلط سے آزادی ہے جس پر وہ کسی مفاہمت کیلئے تیار نہیں اور پاکستان کا بھی یہی دیرینہ اور اصولی موقف ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل یواین قراردادوں پر عملدرآمد سے ہی ممکن ہے۔ ۔ دوسری جانب حریت قیادت نے بجا طور پر بھارت اور دنیا کو باور کرادیا ہے کہ مودی کا رچایا جانے والا ڈرامہ کشمیروں کے زخموں پر نمک پاشی اور عالمی برادری کو گمراہ کرنے کی ایک بھونڈی کوشش ہے۔۔ دراصل مودی کشمیریوں سے غداری کی تاریخ دہرا رہے ہیں۔ کیونکہ کشمیریوں کے حقیقی نمائندوں اور پاکستان کی شرکت کے بغیر تنازعۂ کشمیر کے حل کیلئے کوئی بھی ملاقات یا مذاکرات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکتے۔ کشمیری عوام بھارت سمیت مودی پر اعتماد کرنے کو ہرگز تیار نہیں ہیں ۔ کیونکہ مودی نے کشمیر کو جھنڈے ،شناخت اور بنیادی انسانی حقوق سے محروم کرکے اپنے زرخریدوں کی بھی تذلیل کی ہے جبکہ وہ کشمیری عوام کے ساتھ غداری کے مرتکب ہوئے ہیں۔

۔ کشمیری عوام اپنی دھرتی کی بھارتی تسلط سے آزادی کی جدوجہد کر رہے ہیں اور اس جدوجہد میں وہ اب تک اپنے لاکھوں پیاروں کی جانوں کے نذرانے پیش کرچکے ہیں جبکہ انکی مالی قربانیوں کی بھی کوئی مثال نہیں ملتی۔ وہ اپنی آزادی پر کوئی سمجھوتہ کرنے کو ہرگز تیار نہیں جنہوں نے درحقیقت اپنا مستقبل قیام پاکستان سے بھی پہلے پاکستان کے ساتھ منسلک کرلیا تھا۔ اسی تناظر میں کشمیر اور پاکستان کے عوام کے دل ایک دوسرے کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ الحاق ہی کشمیریوں کی منزل ہے اور انکی اس منزل کا حصول ہی دراصل تکمیل پاکستان ہے۔

۔ بھارت نے گزشتہ دوسال سے مقبوضہ وادی میں کرفیو لگا کر مظلوم کشمیریوں کے بنیادی حقوق بھی سلب کررکھے ہیں اس سلسلے میں بین الاقوامی برادری کا عملی طور پر کچھ نہ کرنا اور کرفیو ہٹانے کے لیے بھارت پر دباؤ نہ ڈالنا عالمی بے حسی اور بے ضمیری کا ثبوت ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ اس حوالے سے اقوام متحدہ، سلامتی کونسل اور اسلامی تعاون تنظیم سمیت مختلف بین الاقوامی اور عالمی پلیٹ فارموں پر لابنگ کے ذریعے بین الاقوامی برادری کو احساس دلائے کہ جب تک بھارت جموں و کشمیر پر اپنا غیر قانونی قبضہ ختم کر کے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو حق خود ارادیت نہیں دیتا تب تک خطے میں امن و امان قائم نہیں ہوسکتا۔

Comments are closed.