لاہور:نوازشریف مودی کوخط لکھے یامودی نوازشریف کوتوغدّار:عمران خان لکھے تومحب وطن؛دہرامعیارکیوں ؟

یہ بہت ہی اہم موضوع ہے جس کوسمجنے کے لیے حالات وواقعات پرنطررکھنا بھی بہت ضروری ہے

اس بات سے کسی کوانکارنہیں کہ خط کیوں لکھا ؟ دوستوں ، رشتہ داروں کی طرح حکومتیں اورحکومتوں کے سربراہ ایک دوسرے کوخط لکھتے رہتے ہیں

اس سے پہلے کہ میں اس دہرے معیار کے متعلق کچھ بتاوں پہلے کچھ مختصرسا پاکستان اوربھارت کے سربراہان کے درمیان خط وکتابت کے حوالے سے بات ہوہی جائے

 

نوازشریف کو مودی نے پہلی مرتبہ خط نہیں لکھا بلکہ اس سے پہلے بیگم کلثوم نواز کی وفات پربھی مودی نے خط لکھ کراظہارتعزیت کیا تھا ،

اس سے پہلے مودی نے نواز شریف کو 2014میں بھی خط لکھا تھا جس میں مودی نے نواز شریف کو خط لکھتے ہوئے کہا تھا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ پاکستان میں سیلاب سے بہت زیادہ تباہی ہوئی ہے

 

مودی اس خط میں لکھتے ہیں کہ میں اس مشکل صورت حال میں آپ کی مدد کرنا چاہتا ہوں‌،جہاں آپ پسند کریں گے بھارت آپ کے ساتھ تعاون کرے گا

یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اس سفارتی خط وکتابت کے علاوہ ان دونوں وزرائے اعظم کےدرمیان بالواسطہ بھی بہت بڑی راز کی باتیں ہوئی جن میں بھارت میں اسٹیل انڈسٹری کے ٹائکون جندال جیسے کئی دوست بھی رابطہ کاراورسہولت کار کے طور پرکام کرتے رہے اورآج بھی کررہے ہیں

 

 

دوسری طرف نواز شریف نے بھی بھارتی وزیراعظم کوخیرسگالی کے طور خطوط لکھے

ان خطوط کو بھارتی میڈیا نے کچھ زیادہ ہی ذاتی تعلقات کی طرف موڑنے کی کوشش کی

شاید بھارتی میڈیا نے ان خطوط کوذاتی تعلقات کوپروان چڑھانے کی خط وکتابت اس لیے قرار دیا کہ ان خطوط میں نوازشریف نے جب بھی بات کی یہ کہا کہ میں اورمیرا خاندان آپ سے تعلقات کوآگے بڑھانے کا خواہاں ہے ،ایسے تاثردیا گیا کہ نوازشریف ریاست کی طرف سے نہیں بلکہ ذاتی حیثیت سے خط لکھ رہے ہیں

بہرکیف ان خطوط میں بظاہردونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کوبہتر کرنا شامل تھا

 

نوازشریف اس سے پہلے بھارت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجبائی کوبھی محبت بھرا خط لکھ چکے ہیں‌

ان خطوط کوبنیاد بنا کرکہا جاتا ہے کہ مودی اورنواز شریف کے درمیان تعلقات بظاہرریاستی ثابت کیے گئے لیکن نواز شریف ان خطوط سے ہٹ کرمودی سے ذاتی تعلقات کے خواہاں تھے

شاید اسی وجہ سے نواز شریف کو مودی کا یارکہاجاتا ہے

یہ نطریہ کس قدر درست اورحقیقت پرمبنی ہے اس پراگے چل کربات ہوگی اب بات کرتے ہیں عمران خان کی تو: عمران خان نے بھی مودی کوخط لکھا جس میں دونوں ملکوں کےدرمیان تعلقات کوبہترکرنے کے لیے نیک نیتی ظاہرکی گئی ہے

یہاں پرایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان بھی وہی کام کرے جونوازشریف نے کیئے توپھران میں فرق کیوں ؟

اس کوسمجھنے کےلیے ان حالات،حقیقت اورمعاشرتی پہلوکوسمجھنا زیادہ ضروری ہے

خاندانوں اوربرادریوں میں دیکھا گیا ہے کہ جن خاندانوں میں دشمنی اوردوری ہوتو ایک خاندان دوسرے خاندان کی خوشی میں کم ہی شریک ہوتا ہے ،

 

ان حالات میں جب ایک خاندان رشتہ داریوں میں اس قدر جکڑا ہوکہ وہ تمام تراختلافات کے باوجود ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتے

ایسے میں ایک خاندان کا سربراہ جو فیصلہ کرتا ہے اس کی اولاد اس کو فالو کرتی ہے لیکن اگراس دوران اگراولاد میں سے ایک بیٹا "شریکاں نال چوری چوری ملے "اورخاندان کے بڑے کی عزت وتکریم کا خیال نہ کرے تویہ خاندان کی عزت کوخاک میں ملانے کے مترادف ہوتا ہے ،

یہ طرزعمل خاندان کی یکجہتی کوپارہ پارہ کرنے کا ایک گھنونا کھیل ہوتا ہے

پھرجوبیٹا خاندان کی روایات کےبرعکس شریکا ں نوں‌ ملے اپنے خاندان ، برادری ، یا بھائیوں کوبائی پاس کرکے ملے تواس پر جوخاندان کے ساتھ گزرتی ہے تو وہ ہی بہتر جانتے ہیں ،

نوازشریف کی مثال اس بچے کی ہے جوخاندان کی روایات کوبائی پاس کرتا ہوا یا پھر شریکاں دی شادی تے گھروالیاں نوچھڈ کے خود ہی چلا جاوے یا پھرشریکاں نال چوری چوری ملے” کی طرح ہے

اس لیے جولوگ یہ کہتے ہیں وہ انہیں روایات کی بنیاد پرکہتے ہیں

 

 

اورعمران خان اگرمودی کوخط لکھے یا ملے تو اس کی مثال ایسے ہی کہ جب ایک خاندان کودوسرے خاندان کی طرف سے خاندانی اختلافات کے باجود شادی کی دعوت ہوتو گھروالے ، خاندان کا سربراہ سب ملکر کسی ایک کو "شریکاں دی شادی ” میں بھیج دیتے ہیں تاکہ شادی بھی بھگتائی جائے اورخاندان کا بھرم بھی قائم رہے

عمران خان اس فرد کی طرح ہے جس پرخاندان کواعتبارہوتا ہے کہ یہ خاندان کی عزت اورروایات کوکبھی بھی ضائع نہیں ہونے دے گا

دوسرا اہم نقطہ یہ ہے کہ عمران خان نے جو فون کیا اس کے پیچھے ذاتی نہیں ملکی مفادات تھے

عمران خان کا بھارت میں کاروبارنہیں یا دیگرممالک میں بھارتیوں کے ساتھ کاروباری شیئرز نہیں

عمران خان کے اسٹیل ٹائیکون جندال جیسے افراد کے ساتھ کاروبارکی بنیاد پرتعلقات نہیں

اس کے برعکس نوازشریف ، حسن نوازاورحسین نواز کے جوبھارتیوں سے کاروباری لین دین اورشیئرز ہیں ان کے ہوتے ہوئے ریاستی مفادات کا دفاع بہتر انداز سے نہیں ہوسکتا

انہیں حقائق کی بنیاد پرتبصرہ نگار،تجزیہ نگاراوردوسرے اہم حلقے نوازشریف کوپاکستان سے زیادہ بھارت کا وفادار سمجھتے ہیں جس سے متعلق بڑے بڑے راز ابھی بھی نظروں سے اوجھل ہیں لیکن کب تک رہیں ایسے ممکن نہیں ہے

Shares: