مومنین اور رمضان المبارک تحریر:حافظ امیر حمزہ سانگلوی

مومنین اور رمضان المبارک

تحریر:حافظ امیر حمزہ سانگلوی

ماہ صیام کی آمد آمد ہے۔مومن مسلمان خوشی سے باغ باغ ہیں۔اس کی رحمتوں اور برکات کو سمیٹنے کے لیے کمر کسی ہوئی ہے۔گویا کہ ایسے لوگوں پر خدا تعالیٰ کی رحمت و برکت بھرپور برسنے کو تیار ہے یعنی جیسے ہی رمضان المبارک کا چاند نظر آئے مومنین پر رحمت کی بارش بذات خود خوب برسنے کو بے تاب ہے۔یہ کوئی عام مہینہ نہیں بلکہ ماہ رمضان المبارک نزول قرآن کا مہینہ ہے، رب العزت کی مومنین کے لیے بنائی گئی پیاری جنت میں داخلے اور جہنم سے آزادی و چھٹکارا پانے کا مہینہ ہے۔ لوگوں کے لیے ہدایت و رہنما کتاب قرآن مجید کی کثرت سے تلاوت کرنے کا مہینہ ہے۔ فرائض کے علاوہ نوافل کو کثرت سے پڑھنے اور صدقات و خیرات کو تیز آندھی کی طرح کرنے کا مہینہ ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ ہر قسم کی عبادات کا ایک نیکیوں کا موسم بہار ہے۔جس کے آنے سے پوری دنیا کے ہر کونے میں زندگی بسر کرنے والے مسلمان اپنے اپنے ایمان اور تقویٰ کے مطابق ان بابرکت ایام میں اپنے خالق حقیقی کی رضامندی حاصل کرنے اور بندگی کا حق ادا کرتے ہیں۔

رمضان المبارک کے مہینے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے بخشش و رحمت کے دروازے کھولے ہوتے ہیں۔حدیث مبارکہ میں وارد ہوا ہے کہ رمضان المبارک شروع ہوتے ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمتوں اور برکتوں کا نزول شروع ہو جاتا ہے۔ جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں۔ سرکش شیطانوں کو قید کر دیا جاتا ہے۔ ایک روایت میں ہے رحمت کے دروازے کھولے جاتے ہیں۔ جنت کے آٹھ دروازے ہیں ان میں سے ایک دروازے کا نام ”ریان”ہے۔ اس دروازے سے صرف روزہ دار ہی داخل ہوں سکیں گے۔

ان ایام میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایک فرشتے کی ڈیوٹی لگا دی جاتی ہے،جو کہ اپنے انداز سے لوگوں کو آواز لگاتا ہے۔ اے بھلائی کے چاہنے والے! جلدی کر،یہ وقت بڑا غنیمت ہے، اتنا بڑا اجر کسی دوسرے وقت میں نہیں ملے گا۔ اے برائی کرنے والے اب تو رک جا کہ یہ وقت عذاب الٰہی کو دعوت دینے کا نہیں ہے۔ پھر جو لوگ نیکی کرتے ہیں اور برائی کرنے سے رکے رہتے ہیں ان کو آگ سے یعنی جہنم سے آزاد کر دیا جاتا ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت شروع سال سے لے کر آئندہ سال تک سجائی جاتی ہے۔ جب رمضان شریف کا پہلا دن ہوتا ہے تو عرش کے نیچے سے ایک ہوا جنت کے پتوں کو سرسراتی ہوئی حوروں تک پہنچتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمارے لیے اپنے بندوں میں سے خاوند بنا دے جن سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی رہیں۔ ایک اور مقام پر فرمایا: رمضان المبارک سے بہتر مہینہ مومن کے لیے اور کوئی نہیں۔ وہ رمضان کے اخراجات پہلے ہی تیار کر لیتا ہے اور زیادہ عبادت کی سعادت حاصل کر لیتا ہے۔ جب کہ منافق پر رمضان المبارک کا مہینہ بڑا بھاری ہوتا ہے۔ وہ اس میں مومنوں کو بد نام اور ذلیل کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے۔(ابن ماجہ)

رمضان المبارک کی بابرکت گھڑیوں کو معمولی نہ سمجھیں۔ان ایام کو عام دنوں کی طرح بے توجہی سے گزار دینا اور پرواہ نہ کرنا۔خدانخواستہ اگر کوئی انسان اپنے گناہوں کو معاف نہ کرا سکا،اپنی بخشش اور اپنے مالک حقیقی کی رضا مندی حاصل نہ کر سکا، تو ایسے بدنصیب سے اللہ کی رحمت دور ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ منبر کی پہلی سیڑھی پر اپنا قدم مبارک رکھا تو فرمایا: آمین،دوسری سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا: آمین، تیسری سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا: آمین، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے یہ عجیب بات دیکھی ہے۔ پہلے آپ نے کبھی اس طرح منبر پر چڑھتے ہوئے آمین نہیں کہا۔ تو آپ نے فرمایا منبر کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھتے ہی میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے اور انھوں نے کہا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: جس شخص نے رمضان المبارک میں روزے رکھے اور جنت حاصل نہ کر سکا، وہ اللہ کی رحمت سے محروم ہے۔ میں نے کہا آمین،دوسرے سیڑھی پر قدم رکھتے ہوئے جبریل نے کہا۔ جو شخص اپنے والدین میں سے کسی ایک کو بڑھاپے میں پائے اور وہ ان کی خدمت کر کے جنت حاصل نہ کرے تو وہ بھی اللہ کی رحمت سے محروم ہو۔ تیسری سیڑھی پر قدم رکھتے ہوئے جبریل علیہ السلام نے کہا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نامی سن کرآپ پر درود شریف نہ پڑھے وہ بھی اللہ کی رحمت سے محروم ہو۔ میں نے کہا: آمین۔(ترمذی)اس حدیث مبارکہ سے رمضان المبارک کی اہمیت و عظمت اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے، کہ ہم اتنی زیادہ نیکیاں کریں کہ اللہ تعالیٰ خوش ہو کر ہمیں جنت میں داخلہ نصیب کر دے۔ اسی طرح یہ بھی واضح ہوا کہ ماں باپ کی اطاعت کرنا اور کثرت سے درود شریف کا اہتمام کرنابھی جنت میں داخلے کا ذریعہ ہے۔

Comments are closed.