موسم سرما” رشتوں کا موسم

تحریر : احمر مرتضٰی

یوں تو اللہ رب العزت کے تخلیق کردہ بارہ کے بارہ مہینے ہی اپنی الگ الگ خصوصیات رکھتے ہے لیکن ستمبر سے لے کر مارچ تک کا موسم جو پاکستان بھر میں بالخصوص اور دنیا بھر میں بالعموم سردی کا موسم کہلاتا ہے اور یہ موسم جہاں عام لوگوں کی اکثریت اور سیاحت کے شوقین افراد کا پسندیدہ موسم ہے وہی شعرا حضرات بھی صدیوں سے اب تک ان موسموں کی خوبصورتیوں ،رعنائیوں اور دیگر ڈھیروں خوبیوں پر طبع آزمائی کرتے آرہے ہے تو دوسری طرف دیو قامت پہاڑ ان میں گھری ہوئی وادیاں اور ان کے اردگرد خم کھاتی کچی پکی سڑکیں ،غرض ہر جگہ ہر مقام جہاں برف کی سفید چادر اوڑھے نظر آتے ہے وہی ہموار اور پست سطح زمین اور اس کے باسی ان موسموں سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے شدید اثرات سے بھی بچاو کرتے نظر آتے ہے، مختصر کے ان موسموں میں ہر چیز مختلف انداز میں ڈھلتی ،بکھرتی ،سنورتی اور نکھرتی ہے،اور ہر شخص اپنی طبعیت،مزاج اور دلچسپی کے تحت اس موسم کے اثرات کو محسوس کرتا نظر آتا ہے اور سب سے بڑھ کر انسانی رویوں میں بھی ایک بڑی تغیر و تبدیلی واقع ہوتی ہے جو موسموں کے مہیب اثرات میں سے ایک ہے،لیکن اس تمام تر تمہید کے بعد راقم الحروف کا جس چیز کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے وہ یہ کہ انسانی طبعیت میں موجزن جذبات کے سیلِ رواں میں جیسی طغیانی ،تغیر، پھڑپھڑاہٹ سرما کی دبک کر بیٹھا دینی والی سرد صبح و راتوں،تاحدِ نگاہ چھائی دھند،روئی کے گالوں کی مانند گرتی برف،یخ بستہ ہوائیں پیدا کرتی ہے یہ امتیاز کسی موسم کو حاصل نہیں ہے اور اگر ان مچلتے ہوئے جذبات کا رخ بچھڑ جانے والوں،مقدس رشتوں کو توڑ جانے والوں ، بیچ منجدھار کے چھوڑ جانے والوں اپنوں کی جدائی کی طرف ہوجاے تو پھر ہر ذی روح کو منجمد کر بدینی والی بارعب ٹھنڈ کے باوجود آنکھوں سے ایک ایسا سمندر جاری ہوجاتا ہے جس سے مضبوط عزائم کے ساتھ ضبط کئے گئے زخموں پر تہہ در تہہ جمی ہوئی برف لمحوں میں پگھل جاتی ہے اور انسانی آنکھیں پگھلی ہوئی برف سے جاری آبشاروں اور ندی نالوں کی مانند ہوجاتی ہے، لیکن رک جائے، ٹہرجائے اس سے پہلے کہ پگھلی ہوئی برف کا پانی سیلاب کی شکل میں آپ
کے حوش و حواس کو بہا لیں جاے آپ کو حواس باختہ کردیں، آپ کو ہر حال میں مضبوطی سے نئی امنگ، نئے جذبے سے جمی ہوئی تہہ در تہہ برف بنے رہنا ہے بچھڑ جانے والوں کے لیے اچھے انجام کی دعا کی برف،رشتوں کی ڈور کو توڑ جانے والوں کے لیے ملانے والی اورحق پر ہونے کے باوجود جھک جانے والی برف،زندگی بھر کا وعدہ کرکے لہروں کے سپرد کردینے والوں کے لیے وہ برف جس کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا بھی کسی نا کسی چیز کو کنارے لگا ہی دیتا ہے اور خود کو بنائے تہہ در تہہ جمی ہوئی وہ برف جوسختی کے باوجود اپنے اوپر چلنے والوں کے لیے کسی نقصان کا باعث کم ہی بنتی ہے اور اپنی سخت سطح کے باوجود ہر آنے جانے والوں کے لیے رستہ بھی ہموار کرتی ہے اوراس کے ساتھ ساتھ پاؤں کے نشانات اپنی دہلیز پر سجاکر راہنما کا کردار بھی ادا کرتی ہے

یاد رکھیے ! رشتوں کے موسم میں تغیر و تبدیلی تا قیامت جاری و ساری ہے
مگر یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ نے سرما کی برف کا کردار ادا کرنا ہے یا گرما کی جھلسا دینے والی دھوپ کا جس کی زد میں آکر ہر جاندار بلکتا اور ہمت ہارتا نظر آتا ہے !

نوٹ: اپنوں کے غم بے شک بھلائے نہیں جاتے اور ہر بار زیادتی پر ضبط کیا نہیں جاتا مگر ہمارے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملے میں کیا طرز عمل اختیار کیا اس کے لیے ضروری ہے کہ سیرت طیبہ کا مطالعہ کیا جائے
اور خوب غور سے کیا جائے !

Shares: