سول ایوی ایشن نے خوشخبری سنادی : 10 ممالک میں کام کرنے والے بیشتر پاکستانی پائلٹس کے لائسنس درست ہیں

ایوی ایشن ڈویژن کا کہنا ہے کہ غیر ملکی ایئر لائنز کے لیے کام کرنے والے تقریباً تمام پاکستانی پائلٹوں کے لائسنسز کی تصدیق ہوگئی ہے۔

واضح رہے کہ قومی ایئر لائن (پی آئی اے) کے ایک تہائی پائلٹس کے ’جعلی یا مشکوک‘ لائسنس کے بارے میں انکشاف ہونے کے بعد 10 ممالک کی ایئرلائنز نے اپنے پاکستانی پائلٹوں کے لائسنس کے ثبوت کا مطالبہ کیا تھا مجموعی طور پر غیر ملکی ایئر لائنز نے 176 پاکستانی پائلٹس کے لائسنسز کی تصدیق طلب کی تھی۔

ایوی ایشن ڈویژن کے ترجمان عبد الستار کھوکھر نے ایک بیان میں کہا کہ ان میں سے 166 کی سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) نے تصدیق کردی ہے۔انہوں نے کہا کہ ’باقی 10 پائلٹس کے لیے تصدیق کا عمل اگلے ہفتے تک مکمل ہوجائے گا‘۔

پریس ریلیز کے مطابق ترکی، متحدہ عرب امارات، عمان، قطر، کویت، بحرین، ملائیشیا، ویتنام، ایتھوپیا اور ہانگ کانگ نے پاکستانی پائلٹوں کے مصدقہ لائسنسز کے ثبوت مانگے تھے۔واضح رہے کہ وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے گزشتہ ماہ انکشاف کیا تھا کہ 262 پائلٹس کے لائسنس مشکوک ہیں۔

عبد الستار کھوکھرنے کہا کہ ’مشکوک‘ لائسنس کے حامل 262 میں سے 28 کے لائسنس کابینہ سے منظوری کے بعد منسوخ کردیے گئے۔

انہوں نے کہا کہ 76 پائلٹوں کے لائسنسز کی تصدیق کے لیے عمل شروع کردیا گیا تھا جبکہ باقی کیسز کی کارروائی ’جلد‘ شروع کردی جائے گی۔

یاد رہے کہ وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے گزشتہ ماہ قومی اسمبلی میں انکشاف کیا تھا کہ پاکستانی پائلٹس کی بڑی تعداد کے پاس جعلی لائسنس ہیں جس کے بعد متعدد ممالک کی جانب سے پی آئی اے کی پروازوں پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔

یورپی یونین اور برطانیہ نے فوری طور پر پابندی کا اعلان کیا تھا جس کے بعد اقوام متحدہ اور دیگر ممالک کی جانب سے بھی احکامات جاری کیے گئے تھے۔

پاکستان ایئر لائن پائلٹس ایسوسی ایشن (پالپا) نے چیف جسٹس آف پاکستان سے درخواست کی تھی کہ وہ پائلٹس کے مبینہ جعلی لائسنسز کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن تشکیل دیں۔

پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کا کہنا تھا کہ کمرشل پائلٹس کے مشتبہ لائسنس کا معاملہ کراچی میں ہونے والے طیارہ حادثے کی تحقیقات کے بعد منظر عام پر آیا اور یہ صرف قومی ایئرلائن سے متعلق نہیں ہے۔

ایک ٹوئٹر پیغام میں قومی ایئرلائن کے حکام نے کہا تھا کہ لائسنس متعلقہ اتھارٹی جاری کرتی ہے اور ان کے ریکارڈ کے مطابق وہ درست تھے۔

Comments are closed.