موٹروے واقعہ اور معاشرتی تضاد .تحریر: فروا نزیر
خدا کا جتنا شکر ادا کیا جاتا اتنا ہی کم تھا ،ورنہ ایسی انہونی ہونے کی امید نہیں تھی ،اتنا بڑا ،پیچیدہ اور انتہائی اہمیت کا حامل مسئلہ اگراتنی جلدی حل ہو جائے،تواس پر زیادہ نہیں ،دو چار نفل شکرانے کے تو بنتے ہیں ۔ مذہب کو دقیانوسی معاملہ قرار دینے والی دیسی لبرل مارکہ خواتین مشروب مغرب سے لطف اندوز ہوتے ہوئے بلاشبہ اسے خواتین کی جیت قرار دینے میں حق بجانب تھیں، سی سی پی او صاحب کامعافی مانگنا ایک اہم واقعہ تھا ۔جس کے بعد جرم خود بخود ختم ہوجانے تھے ،اگر نہ بھی ہوتے تو مضائقہ نہیں بس یہ نہ کہتے کہ آدھی رات کو گھر سے نکلتے وقت خواتین گاڑی کا تیل چیک کرلیا کریں تاکہ راستے میں پریشانی نہ ہوکیونکہ اس سے خواتین کی آزادی متاثرہوتی ہے۔
بچوں کے سامنے ماں کے ساتھ زیادتی کی ہولناک واردات دراصل وہ مسئلہ تھا جس پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرور ت تھی ،مستقبل میں ایسے واقعات کے تدارک کیلئے مربوط کوششوں کا یہ نقطہ آغا ز ہو سکتا تھا ، بدقسمتی سے مگر ہر ایک نے اسے اپنے ذاتی و گروہی مفاد کیلئے استعمال کیا ۔کون نہیں جانتا کہ نئے سی سی پی او کی تعیناتی کی سب سے زیادہ کس کو پریشانی تھی،وہ کون سی قومی سطح کی سیاسی جماعت تھی جس نے کھل کر ایک شہر کی حد تک محدود تعیناتی کی مخالفت کی ،آخر کچھ تووجہ ہے کہ ایک بے ضرر بیان کو متاثرہ خاتون پر الزام کے مترادف قرار دے کر بھرپور مہم چلائی گئی ،ٹویٹر پر ہیش ٹیگز بنائے اور چلائے گئے ،احتجاج اور میڈیا اینکرز کے ذریعے سی سی پی او کو ہٹانے کے مطالبے کو تقویت دی گئی ،یہی مطالبہ درخواست کی شکل میں عدالت تک بھی پہنچا دیا گیا اور غالب گمان کے عین مطابق وہ درخواست سماعت کیلئے منظور بھی کر لی گئی ۔ سب جانتے ہیں قانون کی تشریح ایک مخصو ص خاندان کے حوالے سے جس طرح لاہور میں ہوتی ہے وہ کہیں نہیں ہو سکتی ۔ ملز م تو پکڑے گئے،سزا بھی ہوگئی ،مگر ایسے واقعات کا تدارک نہیں ہوا ،قصورمیں زینب کے واقعے میں بھی تو مجرم کو سزا دی گئی تو کیا اس کے بعد یہ جرم ہونا بند ہوگیا ؟صرف پنجاب میں ایک سال کے دوران زیادتی کے 2ہزار اور اجتماعی زیادتی کے سو سے زیادہ واقعات ہوئے ،یہ واقعات اس وقت تک ہوتے رہیں گے،جب تک اس کی جڑکو نہیں اکھاڑ پھینکا جاتا، اس کی جڑیں بھی دوسرے جرائم کی طرح ہماری معاشی ،سماجی،معاشرتی ناانصافیوں سے پھوٹتی ہیں،تونسہ شریف میں بھی بچوں کے سامنے ماں کے ساتھ زیادتی کی گئی اورملزموں کی ضمانت ہو گئی،لیکن اس حوالے سے نہ تو سوشل میڈیا پر ٹرینڈ بنے ،چینلز پر پروگرام ہوئے اورنہ ہی میرا جسم میری مرضی کے نعرے لگاتی خواتین کو اس مظلوم عورت کا کچھ خیال آیا ،اس کے کرب کو کسی نے محسوس نہیں کیا کیونکہ وہ ایک نچلے طبقے کی خاتون تھی۔آپ کو سوشل میڈیا پر اشرافیہ کی خواتین بار بار کہتی نظر آئیں کہ خاتون کی تصاویر اور نام شیئر نہ کیا جائے ،جوکہ ایک اچھی بات ہے مگر کیا یہ حساسیت قصور کی زینب کے والدین کے حوالے سے دیکھی گئی ؟پریس کانفرنس میں بٹھا کر اس کے سامنے جس بے شرمی کیساتھ ہنسی مذاق کیا گیا ،اس پر کسی کو خیال آیا کہ ان کی بھی کوئی عزت ہے ،ان کا نام اور شناخت بھی چھپانی چاہیے ،سب نے مذکورہ خاندان کو ان کی عزت کی پرواہ کئے بغیر اپنے اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا