وہ کام ہی کیوں‌ کیا جائے جس پر بعد میں معافی مانگنا پڑے،
پاکستانی وزیرا عظم اس وقت اقوام متحدہ میں کشمیر کا مقدمہ لڑ رہے ہیں ، کشمیر ایک ایسا ایشو ہےجو سب کا مشترک اور سانجھا ہے اس پر کسی کو اپنے سیاسی مفادات کو ترجیح نہیں‌دینی چاہیے . میڈیا اس مسئلہ کو اجاگر کر رہا ہے اور قومی اور ریاستی موقف و بیانیے کو نبھا رہا ہے . بھارت کے کشمیر پر ظالمانہ قبضے پر اپنا کردار ادا کررہے ہیں . لیکن چند ایک میڈیا گروپ ایسے بھی ہیں جن کو ایسے حساس مسئلہ پر بھی کوئی خیال نہیں ہے. ان کی سوئی وہیں اٹکی ہوئی ہے لگتا ہے جیسے وہ بھارت کی زبان بولتے نظر آتے ہیں .روزنامہ دی نیشن نے ایک ایسا کارٹون اپنے اخبار میں چھاپا ہے جس کی مہذب معاشرہ اجازت نہیں دیتا اپنے ملک کے وزیرا عظم کے لیے توہین ہی تصور کیا جائے گا. اس کارٹون پر اگرچہ ادارے کی معذرت آ گئی ہے لیکن ان کی ذمہ دارانہ صحافت کا اندازہ اس بات سے لگتا ہے کہ ایسے ادارے کس طرح خاص مقصد کے لیے اور مخصوص لوگوں کو خوش کرنے کےلیے صحافت کرتے ہیں چاہے اس کے بدلے ریاستی مفادات کوہی داؤ پر لگانا پڑے . قوم نے اس کارٹون کی اشاعت کے بعد شدید رد عمل دیا ہے جس پر ادارے کو اپنے کیے پر معافی مانگنا پڑی ہے ، اور پہلے ہی ذمہ داری کا اظہار کرتےہوئے ایسے بے ہودہ کام سے خود کو روکا جاتا تو کتنا ہی اچھا تھا.

Shares: