‏معاشرے میں ہماری ذمہ داریاں تحریر: ملک ضماد

0
161

تحریر: ملک ضماد

عنوان: ‏معاشرے میں ہماری ذمہ داریاں

پوری دنیا میں بسنے والے انسان کسی معاشرے میں رہتا یے تو اس کے اوپر اس معاشرے سے متعلق بہت سی ذمہ داریاں لاگو ہوتی ہیں جو کچھ تو اخلاقی، تو کچھ قانونی ہوتی، کچھ مذہبی ہوتی ہیں
جن کو احسن طریقے سے پورا کرنے سے انسان نا صرف خود بلکہ اس کے ارد گرد کے لوگ بھی خوش رہتے ہیں اس طرح معاشرے کو پروان چڑھنے میں مدد ملتی ہے اور ہر انسان اپنی جگہ خوش رہتا ہے
اسلام ہمیں پڑوسیوں کے حقوق کے بارے میں بتاتا ہے اگر ہمارا کوئی پڑوسی کمزور ہے باقی معاشرے کی نسبت تو ہمارا یہ اخلاقی و مذہبی فرق بنتا ہے ہم اس کے ضروریات زندگی کا خیال رکھیں اور اس کو باقی معاشرے کے برابر لانے میں کردار ادا کریں
"”رسول اللہ ﷺکاارشاد ہے کہ جبرئیل نے مجھ کو پڑوسی کے حقوق کی اتنی تاکید کی کہ مجھے خدشہ ہوگیاکہ پڑوسیوں کوبھی وراثت میں حقدار قراردیدیاجائے””

حضرت ابوشریح خزاعی کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :
جواللہ اورقیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اُسے چاہئے کہ وہ پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کرے۔
(مسلم شریف )

ہم اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں تو ہم کتنا خیال کرتے ہیں پڑوسیوں کا
ہم ان کے حقوق کتنے ادا کر رہے
کیا ہمارے پڑوسیوں ہماری وجہ سے تنگ تو نہیں

یہ سب دیکھ کر پھر اہنا محاسبہ کیا جائے پھر اگر کوئی کمی کوتائی یے تو اللہ پاک سے معافی مانگ کر آئندہ ایسا کچھ نا ہونے کا اعادہ کیا جائے

بطور معاشرہ جب ہم کسی کے ساتھ کوئی معاملہ کریں یا کوئی بات کرین تو اس کو یہ محسوس نہیں ہونا چاہیے کہ ہم اس سے بہتر ہیں بلکہ اس کو اس انداز میں بیان کیا جائے جیسے وہ ہم سے بہتر ہے اور ہم سیکھ رہے ہیں
اس طرح معاشرے میں بڑھتی ہوئی برائیوں کو روکنے اور ان اچھے کاموں کو پروموٹ کرنے میں ہمارے بہت سی ذمہ داریاں ہیں جو ہم نا صرف پوری نہیں کر رہے بلکہ ہم ان کو اپنے پاوں تلے روند کر ہم کر خود ان برائیوں کا حصہ بن رہے ہوتے ہیں
اور پھر دوسروں پر تنقید ایسے کر رہے ہوتے ہیں جیسے ہم فرشتے ہیں

اقبال رح نے کہا تھا

اپنے کردار پہ ڈال کہ پردہ اقبال
ہر شخص کہ رہا ہے زمانہ خراب ہے

ہم اگر کسی کی طرف ایک انگلی کر کے تنقید کرتے ہیں تو ہمیں یہ سوچنا چاہئے اسی ہاتھ کی 4 انگلیاں ہماری اپنی طرف بھی ہیں
کیا جس بات پے ہم تنقید کر رہے ہیں وہ برائی یا خامی ہمارے اندر بھی ہے یا ہم پاک صاف ہیں

"”رشتوں کی خوبصورتی ایک دوسرے کی بات کو برداشت کرنے میں ہے
بے عیب انسان تلاش کرو گے تو اکیلے رہ جاؤ گے””

ہمارے معاشرے میں صرف ہر انسان اپنی اصلاح کر لے تو ایک ایک کر کے سارا معاشرہ بدل سکتا ہے

ہم جب تنقید بھی کر رہے ہون تو ایک چیز کا خیال رکھنا چاہیے
"”تنقید برائے اصلاح ہونی چاہئے نا کہ تنقید برائے تنقید””

ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہو گا ہم کتنے پانی میں ہیں اور کیا کچھ کر رہے ہیں جو نہیں کرنا چاہیے

Leave a reply