مبارکباد تو بنتی ہے!!! — عمر یوسف

0
47

حدیث مبارکہ میں دو ایسے اشخاص کے لیے مبارکباد پیش کی گئی ہے جو اسلام کی نعمت سے فیض یاب ہوئے اور جنہیں قناعت کی صفت سے متصف ہونا نصیب ہوا ۔ اگر بنظر دقیق ان دونوں باتوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ دونوں چیزیں ہی اپنے اندر ایسی معنویت اور افادیت رکھتی ہیں ہیں کہ انسان بے ساختہ ان باتوں پر مبارکباد کا قائل ہوجاتا ہے ۔

اسلام پانچ چیزوں کا نام ہے ۔ شہادتین ان میں اول نمبر پر ہے ۔ عقیدہ توحید ایسا عقیدہ ہے جو انسان کو در بدر کا فقیر ہونے سے بچاتا ہے اور غیرت مند زندگی گزارنے کی راہ دیتا ہے ۔ انسان ہمیشہ کسی سہارے کو محسوس کرکے خود کی ڈھارس بندھاتا ہے اور ہمیشہ احساس تحفظ سے لبریز رہتا ہے ۔ نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی ہونا بلاشبہ ایسی نعمت ہے جس جیسی نعمت دنیا میں کوئی نہیں ہے ۔
انسانی زندگی کا ایسا ضابطہ حیات جو انسان کو دنیوی و اخروی طور پر کامیابی کی ضمانت دے یقینا وہ آپ علیہ السلام کی بدولت ہی میسر آسکتا ہے ۔

اسلام میں دوسرے نمبر پر فرضیت نماز ہے جو مختلف اوقات میں انسانوں پر پانچ مرتبہ فرض ہے ۔ نمازوں کے اوقات ایک طرح سے انسانوں کے لیے بریک ٹائم ہیں دن بھر کام کے دوران انسان کچھ وقت کے لیے دنیا سے لاتعلق ہوکر بس یکسوئی سے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہے جس سے ذہنی و قلبی اطمینان سے مستفیض ہوتا ہے ۔ مزید برآں انسان نماز کی ادائیگی سے ایک طرح کی ورزش بھی کرلیتا ہے ۔

گویا جہاں خدا راضی ہوتا ہے وہیں پر دنیاوی فوائد بھی حاصل ہوگئے ہیں ۔ تیسرے نمبر پر روزہ ہے جس سے انسان کو جسمانی و روحانی برکات کا حصول ممکن ہوتا ہے ۔ سارا سال کام کرنے والے معدے کو آرام ملتا ہے ۔ اور جدید تحقیق کے مطابق کینسر سمیت متعدد بیماریوں سے انسان محفوظ رہتا ہے ۔ غریبوں کی بھوک اور تنگیوں کا بھی احساس ہوتا ہے جس سے انسان کا دل نرم ہوکر بندوں اور بندوں کے خدا دونوں کے لیے نرم ہوجاتا ہے ۔

چوتھے نمبر پر زکوہ ہے جس سے معاشرے میں موجود طبقاتی عدم مساوات کا خاتمہ ہوتا ہے ۔ دولت ایک جگہ اکٹھی ہونے کی بجائے گردش میں آتی ہے اور غریب طبقہ بھی انسانی ضروریات پوری کرنے کے قابل ہوجاتا ہے جس سے انفرادی و اجتماعی سطح پر استحکام کا حصول ممکن ہوتا ہے ۔

پانچویں نمبر پر حج ہے جس میں سارے مسلمان بقدر استطاعت سال بعد بیت اللہ میں جمع ہوتے ہیں اپنی اجتماعیت پر ناز کرتے ہیں اور پوری دنیا کے مسلمانوں میں ایک مضبوط رشتہ اخوت اسلام کی نسبت سے قائم ہوجاتا ہے ۔ جہاں ان کو قوت ایمانی و رشتہ انسانی میسر ہوتا ہے وہیں پر سیر و سیاحت کا بھی موقع مل جاتا ہے ۔

اسی طرح قناعت پر مبارکباد دی گئی ہے ۔ اور قناعت بھی اپنے اندر لا محدود معنویت رکھتی ہے اور کثیر فوائد سے لبریز ہے ۔ یوں سمجھ لیجیے کہ دل اور نفس کی تمام بیماریوں کا علاج قناعت میں ہے ۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ انسان تسلیم و رضا کا مظاہرہ کرتے ہوئے خدا کی دی گئی نعمتوں اور عطاوں پر راضی ہوجائے ۔ اس کے بعد خواہشات ، لالچ ، حرص ، حسد ، بغض اور دیگر نفسانی آلائشوں سے انسان محفوظ ہوجاتا ہے ۔

یوں حدیث کے پہلے اور دوسرے حصے کا جائزہ لینے سے انسان عش عش کر اٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ واقعی جن کو یہ دونوں نعمتیں میسر ہیں ان کے لیے مبارکباد تو بنتی ہے ۔

Leave a reply