اس سے پہلے وہ شاہ حبشہ، نجاشی کے دربار میں جاتا رہا تھا، روم کے کے بادشاہ قیصر کے محل میں بھی پہنچا تھا اور ایران کے بادشاہ کسری کے پاس بھی سفیر بن کے جاچکا تھا ۔
یہی وجہ تھی کہ اہل مکہ کو اس کی فراست، سفارت اور معاملہ فہمی پر ناز تھا ۔وہ اسے اپنی، کسی بھی بڑی سے بڑی مشکل سے بچنے کے لئے کوئی راہ نکالنے کی ذمہ داری سونپ سکتے تھے ۔
یہ اہل مکہ کا ایک دانا، جہاں دیدہ اور تجربہ کار سردار، عروہ بن مسعود تھا ۔یہ بعد میں حلقہ بگوش اسلام ہوئے(رضی الله تعالیٰ عنہ) ان پر انہیں مکمل اعتماد تھا ۔ماضی کی طرح، اج بھی ایک مشکل گتھی سلجھانے کے لئے، مکہ والوں نے انہیں میدان میں اتارنے کا عزم کیا ۔
یہ میدان، مکہ مکرمہ سے انیس میل کے فاصلے پر واقع تھا ۔اس میدان کو حدیبیہ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ یہاں رحمت دو عالم صلی الله عليه وسلم، اپنے صحابہ کرام کی ایک جماعت کے ساتھ موجود تھے،۔اپ صلی الله عليه وسلم مدینہ منورہ سے عمرہ کرنے کے لئے تشریف لائے تھے ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب عروہ بن مسعود نے اپنے جان نثاروں کے درمیان گھرا ہوا دیکھا تو عجب منظر تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے درمیان یوں لگ رہے تھے جیسے روشنی کے حلقے کے درمیان چاند ہو۔
عروہ بن مسعود نے یہ منظر دیکھا تو متآثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے، انہوں نے جہاں مذاکرات کئے، وہیں حالات کا بغور جائزہ بھی لیتےرہے۔ وہ دیکھ کر دنگ رہ گئے، اور حیران کیوں نہ ہوتے، یہاں انہیں وہ کچھ دکھ رہا تھا، جو قیصر وکسری کے دربار میں بھی دیکھنے کو نہ ملا وہ کیا تھا ؟
وہ بتاتے ہیں کہ میں نے دیکھا ؛
جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم وضو فرماتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ماء مستعمل ،وضو کا پانی آپ کے جان نثار نیچے نہیں گرنے دیتے، اسےہاتتھوں ہاتھ لیتے ہیں اور اپنے چہرے اور جسم پر مل لیتے ہیں۔
حد تو یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آب دہن کو زمین ترستی ہے لیکن آپ کے عشاق اسے زمین پر گرنے نہیں دیتے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب گفتگو کرتے ہیں تو ہر سو سناٹا چھا جاتا ہے، آپ کے یہ عقیدت مند ہمہ تن گوش رہتے ہیں۔
آپ کی ہر ہدایت کو سنا اور مانا جاتا ہے بلکہ آپ کے اشارہ ابرو کو بھی سمجھا اور مانا جاتا ہے.
آپ کی حد درجہ تعظیم کی جاتی ہے۔
یوں کہہ لیجیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد موجود ھدایت کے ان روش ستاروں اور جان نثاروں میں سے ہر ایک کی یہ کوشش رہتی کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہ فدا ہو جاؤں، اس فدا کاری کو وہ اپنے لیے دونوں جہانوں کے لیے باعث فخر اور ذریعہ نجات سمجھتا۔
واپسی پر جب عروہ نے کفار کے سامنے آنکھوں دیکھے حال کی منظر کشی کی تو کچھ ہیچ پیچ کرنے کے بعد، آخر کار انہیں اپنے جذبات سے بالا تر ہو کر سوچنا پڑا. نتیجے کے طور پر باہم مصالحت ہوئی۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ والہانہ محبت کا اظہار، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز کے سامنے اپنی آوازوں کا پست رکھنا اور آپ ﷺ کے حکم کی تعمیل میں لپکنا، ہمیں عشق و محبت کے قرینے اور تقاضے بتاتا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعویٰ محبت تو محبت کا محض ایک دعویٰ ہی ہے، جب تک ہم اپنے عمل اور اطاعت رسول سے اپنے اس دعوے پر دلیل پیش نہیں کرتے، اس دعوے کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
محض عمل اور اتباع بھی کمال ایمان کے لیے کافی نہیں ہے، جب تک تسلیم ورضا نہ ہو۔سورۃ نساء کی آیت ہمیں بتاتی ہے کہ ہمارا ایمان اس وقت تک کے لیے غیر معتبر ہے، جب تک ہم اپنی عملی زندگی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ صرف یہ کہ حکم تسلیم کر لیں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اپنے دل میں تنگی محسوس نہ کریں ۔
سورہ احزاب کی ایک آیت ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمارے کسی معاملے میں فیصلہ فرما دینے کے بعد، ہمیں کوئی اختیار نہیں رہتا۔
غرض ایک سچے مؤمن اور حقیقی محب کی شان یہی ہے کہ وہ آقا نامدار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاں اظہارِ محبت کرے، وہاں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت بھی رکھے،
آپ کی عظمت کو بھی جانے،
آپ کے فیصلوں کا احترام بھی کرے،
آپ کی اطاعت و اتباع بھی کرے،
اور وقت آنے پر آپ پر جان و تن فدا بھی کرے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت جہاں ہم سے یہ تقاضے کرتی ہے وہیں ہم سے یہ مطالبہ بھی کرتی ہے کہ ہم اغیار کے طور طریقے چھوڑ دیں، بدعات کا ارتکاب نہ کریں
اور شریعت کے مقابلے میں اپنی خواہشات کی اتباع نہ کریں۔
Twitter | @AdnaniYousafzai