عالم اسلام کے عروج کی بات کی جائے تو صدیوں پر محیط سنہرے ادوار پر لکھی گئی تصانیف سے دنیا کی لائیبریریاں بھری پڑی ہیں۔ اور نا ہی یہ بندہ نا چیز اتنی بڑے موضوع کو چند سطروں میں سمیٹنے کی جسارت کر سکتا ہے۔
لیکن ساری دنیا کے مسلمانوں کے زوال کی ایک ہی کہانی ہے اور وہ ہے اسلام سے دوری۔
اور اسی کے بر عکس ہمارے اسلاف کی عروج کی وجہ بھی یہی رہی۔ اسلام پر قائم رہ کر دنیا مسخر کرنے والوں کی نسلوں نے جیسے جیسے اسلامی اقدار کو چھوڑ کر مغرب کی تقلید شروع کی ویسے ویسے زوال پزیر ہوتے گئے۔ اور اب حال یہ ہے کہ آج کے جدید دور میں ہمارے معاشرے میں کسی کا معیار اگر پرکھا جاتا ہے تو اس کی بنیاد یہ سمجھی جاتی ہے کہ آیا یہ خاندان یا فرد مغربی تہذیب کے کس قدر قریب ہے۔ اور یہ اندھی تقلید ہی ہماری پروان چڑھتی نسلوں کی ذہنی غلامی کا باعث بن رہی ہے۔ ہمارے عقیدے اس قدر کمزور ہو چکے ہیں کہ اللہ پر ایمان صرف کتابوں میں پڑھنے کی حد تک رہ گیا ہے۔ ایمان کی کمزوری ہی کہ وجہ سے ہم حلال و حرام کی تمیز کرنا بھی بھول چکے۔ ہمیں اس بات کا کوئی ادراک نہیں ہے کہ ہماری کمائی کن ذرائع سے آ رہی ہے۔ سود کے خلاف اللہ پاک نے خود اعلان جنگ کیا لیکن اسلام کے نام پر حاصل ہونے والے ملک کا سارا معاشی نظام سود پر چل رہا ہے۔ اسلام کو غالب کرنے کا حکم ہے لیکن ہم محکوم اور مغلوب ہو کر رہنا پسند کر چکے۔ ہمارے سکولوں کے نصاب تک مغرب کی منظوری کے بغیر مرتب نہیں کیئے جا سکتے۔ جہاد اور قتال سے ہم نا آشنا ہو کر رہ گئے۔ اللہ پاک نے بھی ان مؤمنوں کے ساتھ فرشتوں کی مدد کا وعدہ کیا ہے جو اللہ کی راہ میں اللہ کے احکامات پر عمل پیرا ہوں۔ بحیثیت قوم ہم بکھرے پڑے ہیں۔ فرقہ واریت، ذات پات ہمارے اندر ایک نا سور بن چکی ہے۔ مسلماں ایک دوسرے کے خلاف آمنے سامنے کھڑے ہیں۔ معاشرتی برائیاں اس قدر سرایت کر چکی ہیں کہ کسی کے ہاتھ سے کوئی دوسرا محفوظ نہیں۔ بے ایمانی، جھوٹ اور دھوکہ دہی میں ہم بہت اوپر کے نمبروں پر جا چکے ہیں۔ بلکہ ایماندار قوموں میں غیر مسلم ممالک پہلے نمبرز پر ہیں۔
جب ہر فرد کسی نا کسی دھوکے اور چکر فراڈ میں اپنا ذہن لڑانےمیں لگا ہو ہو پھر اس قوم اور ملک میں سائینس دان، فلاسفر اور موجد پیدا نہیں ہوتے بلکہ چور ڈاکو اور لٹیرے ہی جنم لیتے ہیں۔ پھر ہر بندہ اپنی استطاعت کے مطابق ملک کو نقصان پہنچاتا ہے۔ ایک 6 گریڈ کا سرکاری ملازم چند سو روپے سے چند ہزار کی کرپشن کرے گا تو گریڈ 18 سے 20 کا آفسر لاکھوں کروڑوں کی بلکہ موقع ملنے پر اربوں کھربوں روپے کی کرپشن بھی کرے گا۔ یہاں لوٹ مار اور کرپشن سے صرف وہ شخص بچا ہے جسے آج تک موقع نہیں ملا۔ جب ایسے افراد مل کر معاشرہ اور قوم بنتے ہیں تو پھر وہ دنیا پر حکمران نہیں ہوا کرتے بلکہ غلامی ہی ان کا مقدر ہوا کرتی ہے۔
اور اس کی وجہ علامہ محمد اقبال نے ایک شعر میں بیان کر دی
وہ معزز تھے زمانے میں مسلمان ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہو کر
قرآن سے دوری ہی ہر برائی کی جڑ ہے
اور پھر ہر برائی مل کر تباہ حال معاشرے کی بنیاد بن چکی اور یہی تباہ حال معاشرے ہمیں کبھی ایک قوم نہیں بننے دے سکتے۔
جب ہم اپنا موازنہ بحیثیت قوم دوسری اقوام سے کرتے ہیں تو ان کی ترقی اور عروج کی ایک ہی وجہ معلوم ہوتی ہے۔ کہ انھوں نے وہ تمام اسلامی اصول اپنا لیئے جن پر عمل کرنے کا حکم ہمیں تھا۔ وہ تمام غیت مسلم لوگ جھوٹ فراڈ ، دھوکہ دہی اور کرپشن سے دور ہو کر دنیا کی سپر پاور کہلائے جب کہ ہم یہ سب ترک کرتے گئے اور پست ہوتے گئے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے بڑے عہدے داران کی کرپشن کی داستانیں اپنے بچوں کو سنا کر ان کی ذہن سازی ایک غلط کام کی طرف کرنے کے بجائے اسلام کی نامور شخصیات کے عروج کی داستانیں اور اس عروج تک جانے کا نسخہِ اسلام بتایا کریں تا کہ یہ بد حالی اگلی نسلوں کے ذہنوں سے نکال کر ہی ایک نیا معاشرہ اور قوم تیار کر سکیں۔