محرم الحرام سال کا مبارک مہینہ ہے جس سے اسلامی سال کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ مہینہ بہت سی فضیلتوں اور برکتوں کو سموئے ہوئے ہے۔ جب سے زمین و آسمان کی تخلیق ہوئی اس وقت سے خاص واقعات، خاص رحمتیں اور خاص انعامات اسی مہینے سے وابستہ ہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ امت میں ماہ محرم الحرام کی حقیقت، فضیلت اور اہمیت، سے متعلق صحیح اور معتبر تعلیمات دھندلا کر رہ گئی ہیں۔ امت کا ایک بہت بڑا طبقہ محرم الحرام سے متعلق بہت سی بدعات، رسومات، غیر شرعی افعال، بے بنیاد باتوں اور بہت سی من گھڑت چیزوں کا شکار ہے۔ یہ اسلامی تعلیمات سے نا واقفیت ہی ہے کہ بہت سے سادہ لوح مسلمان نظریاتی اور عملی طور پر اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ شریعت کی نظر میں اس مہینے کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اس مہینے کی حرمت زمانہ جاہلیت میں بھی تھی۔ لوگ اس مہینے میں جنگ وجدل سے گریز کرتے تھے اور اسلام کے بعد بھی اس کی حرمت کو برقرار رکھا گیا۔ قرآن و حدیث میں اس مہینے کو شھر الحرم یعنی حرمت والا مہینہ اور "شھر الله” یعنی الله کا مہینہ کہا گیا ہے۔ جس سے اس مہینے کی فضیلت، عظمت اور تقدس ظاہر ہوتا ہے۔ امام نووی فرماتے ہیں:
کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے محرم کو الله عزوجل کا مہینہ قرار دیا ہے جو اس کی عظمت اور تقدس کے لئے کافی ہے۔ کیونکہ الله عزوجل اپنی نسبت صرف اپنی خصوصی مخلوقات کے ساتھ ہی فرماتے ہیں۔
(شرح النووی 55/8)
محرم الحرام کی ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ یہ حرمت والے چار مہینوں میں سے ایک ہے۔ الله تعالیٰ نے چار مہینوں کو خاص کیا ہے۔ ان کی عزت و حرمت کو بڑھایا اور عملِ صالح پر اجر و ثواب کو بڑھا دیا اور نافرمانی کو قبیح قرار دیا۔ رب العزت کا فرمان ہے:
اِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُوۡرِ عِنۡدَ اللّٰہِ اثۡنَا عَشَرَ شَہۡرًا فِیۡ کِتٰبِ اللّٰہِ یَوۡمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ مِنۡہَاۤ اَرۡبَعَۃٌ حُرُمٌ ؕ ذٰلِکَ الدِّیۡنُ الۡقَیِّمُ ۬ ۙ فَلَا تَظۡلِمُوۡا فِیۡہِنَّ اَنۡفُسَکُمۡ وَ قَاتِلُوا الۡمُشۡرِکِیۡنَ کَآفَّۃً کَمَا یُقَاتِلُوۡنَکُمۡ کَآفَّۃً ؕ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الۡمُتَّقِیۡنَ ﴿۳۶﴾
ترجمہ: مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک کتاب الله میں بارہ کی ہے اسی دن سے جب سے آسمان و زمین کو اس نے پیدا کیا ہے ان میں سے چار حرمت و ادب کے ہیں یہی درست دین ہے تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو اور تم تمام مشرکوں سے جہاد کرو جیسے کہ وہ تم سب سے لڑتے ہیں اور جان رکھو کہ اللہ تعالٰی متقیوں کے ساتھ ہے ۔
(سورہ التوبہ:36)
حجۃ الوداع کے موقع پر رسول صلی الله علیہ وسلم نے اعلان فرمایا:
اب زمانہ گھوم کر اسی حالت میں آگیا ہے جس حالت پہ اس وقت تھا جب الله تعالیٰ نے آسمان و زمین کی تخلیق فرمائی، سال بارہ مہینوں کا ہے جن میں سے چار حرمت کے ہیں تین پے در پے ہیں۔ ذوالقعدہ ، ذوالحجہ اور محرم الحرام اور چوتھا رجب ہے جو جمادی الاول اور شعبان کے درمیان واقع ہے۔
(صحیح بخاری: 4662)
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو یہودیوں کو اس دن کا روزہ رکھتے دیکھا اور وجہ دریافت کی تو انہوں نے بتلایا کہ ہم موسی علیہ السلام اور بنی اسرائیل کے فرعون سے نجات پانے کے شکرانے میں روزہ رکھتے ہیں۔ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہم موسی کی موافقت کے زیادہ حقدار ہیں۔ یہودی صرف عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے ان کے ساتھ مشابہت سے بچنے کے لئے الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے نویں کا روزہ بھی رکھنے کا حکم دیا۔ اس مہینے میں روزہ رکھنا باقی مہینوں کے مقابلے میں افضل ہے۔ عاشورہ کے دن روزہ رکھنا مستحب ہے اسی طرح عاشورہ سے ایک دن پہلے روزہ رکھنا بھی مستحب ہے۔ صرف عاشورہ کا روزہ رکھنا یہودیوں کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے مکروہ ہے۔ لہذا دسویں محرم کا روزہ نویں یا گیارہویں محرم کو ملا کر رکھنا مستحب عمل ہے۔ الله کے رسول کا فرمان ہے۔
سب سے زیادہ فضیلت والے روزے رمضان کے روزوں کے بعد الله عزوجل کے مہینے محرم الحرام کے روزے ہیں۔
(مسلم:2813)
اس مہینے میں روزہ رکھنا اسکی حرمت کی وجہ سے الله کے نزدیک محبوب عمل بن جاتا ہے۔ خصوصاً یومِ عاشورہ کا روزہ بے پناہ فضیلت کا حامل ہے۔ رسول الله نے فرمایا کہ میں یومِ عاشورہ کے روزے سے متعلق امید کرتا ہوں کہ وہ پچھلے سال کے گناہوں کا کفارہ ہو جائے گا۔(ترمذی:752)
یومِ عاشورہ کا دن انبیا سے وابستگی اور ان کی حیات کے اہم واقعات کا اسی روز میں پیش آنے کی وجہ سے بہت فضیلت رکھتا ہے۔ صاحب عمدۃ القاری یومِ عاشورہ کے واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ عاشورہ کے دن سیدنا آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی اسی دن ہی وہ جنت میں داخل کئے گئے اسی دن ہی ان کی توبہ قبول ہوئی، اسی دن سیدنا نوح علیہ السلام کی کشتی جبل جودی پر آٹھہری، اسی دن سیدنا ابراہیم علیہ السلام پیدا ہوئے اسی دن ہی وہ نمرود کی دہکتی ہوئی آگ میں ڈالے گئے، اسی دن سیدنا موسی علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے مظالم سے نجات ملی اور فرعون اپنے لشکر کے ساتھ دریائے نیل میں غرق ہوگیا، سیدنا ایوب علیہ السلام کو ان کی بیماری سے شفا نصیب ہوئی، سیدنا ادریس علیہ السلام کو اسی دن آسمانوں کی طرف اٹھا لیا گیا، سیدنا سلیمان علیہ السلام کو ملک کی عظیم بادشاہت نصیب ہوئی، سیدنا یعقوب علیہ السلام کی بینائی لوٹ آئی، اسی دن سیدنا یوسف علیہ السلام کنویں سے نکالے گئے، سیدنا عیسی علیہ السلام کی ولادت اسی دن ہوئی اور اسی دن ہی وہ آسمانوں کی جانب اٹھائے گئے۔ (عمدۃ القاری شرح بخاری:89/7)
اس مہینے میں جہاں اعمال صالح کا ثواب بڑھایا گیا وہیں گناہ پر بھی زیادہ عذاب ہے۔ لہذا گناہوں سے اجتناب کرنا چائیے۔ دوسرے حرمت والے مہینوں کی طرح اس مہینے میں بھی ہر مسلمان کی جان و مال اور عزت کا احترام کرنا چاہئیے ۔ کسی پر ظلم، غیبت، چغلی، حسد، گالی دینا، اور دل آزاری جیسے نافرمانی کے تمام افعال سے گریز کر کے نیکی کے تمام اعمال انجام دینے چاہئیں ۔
سنتِ رسول کو ترک کر کے جو طریقہ اختیار کیا جائے وہ بدعت کہلاتا ہے۔ لہذا زیب و زینت کو ترک کر دینا، سوگ میں ننگے پاؤں ننگے سر اور ننگے بدن رہنا، مرثیہ خوانی کی مجالس منعقد کروانا یا ان میں شرکت کرنا، نوحہ و ماتم، تعزیہ کرنا، سیدنا حسین علیہ السلام کے نام کی سبیلیں چلانا، غیر الله کے نام پر نذر و نیاز دلانا یہ سب کام بدعات کے ہیں۔
مرثیہ خوانی میں صحابہ کرام کی ہجو اور تحقیر ہوتی ہے۔ ازواجِ مطہرات کو گالیاں دی جاتی ہیں۔رسول صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جس نے میرے صحابہ کو گالی دی ، اس پر الله کی، فرشتوں کی، اورسب انسانوں کی لعنت ہے۔ (سلسلہ احادیث صحیحہ:2340)
رسول صلی الله علیہ وسلم نے مرثیہ خوانی سے منع فرمایا ہے۔ (ابن ماجہ:1592)
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جو ماتم کرے اور اپنے رخسار پیٹے، گریبان پھاڑے، اور جاہلیت کی طرح پکارے وہ ہم میں سے نہیں۔ (بخاری:1297)
سیدنا حسین علیہ السلام کے نام پر سبیلیں لگانا کربلا کے میدان مین تین دن بھوک اور پیاس برداشت کرکے شہادت کا مرتبہ پانے والے کی یاد میں ٹھنڈے مشروبات پلانے، منوں کھانے تقسیم کر کے کھانے اور کھلانے اور رب کی یاد سے غافل ہوجانے میں کیا مشترک ہے؟ پھر غیر الله کے نام پر سبیل کا درجہ کیا ہے؟ رب العزت نے فرمایا:
اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیۡکُمُ الۡمَیۡتَۃَ وَ الدَّمَ وَ لَحۡمَ الۡخِنۡزِیۡرِ وَ مَاۤ اُہِلَّ بِہٖ لِغَیۡرِ اللّٰہِ ۚ فَمَنِ اضۡطُرَّ غَیۡرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَلَاۤ اِثۡمَ عَلَیۡہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۷۳﴾
ترجمہ: تم پر مُردہ اور ( بہا ہوا ) خون اور سور کا گوشت اور ہر وہ چیز جس پر اللہ کے سوا دوسروں کا نام پکارا گیا ہو حرام ہے پھر جو مجبور ہو جائے اور وہ حد سے بڑھنے والا اور زیادتی کرنے والا نہ ہو ، اس پر ان کے کھانے میں کوئی گناہ نہیں ، اللہ تعالٰی بخشش کرنے والا مہربان ہے ۔ (سورہ البقرہ: 173)
لہذا جس چیز پر الله کے سوا کسی اور کا نام لیا جائے وہ حرام ہے۔
رسول صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: الله تعالیٰ کی نافرمانی کے کاموں میں نذر کو پورا مت کرو۔(4245)
الله تعالیٰ ہم سب کو قرآن و سنت کی بہترین سمجھ نصیب فرمائے اور اسی کی روشنی میں اعمال انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
جزاکم الله خیراً کثیرا
@Nusrat_writes
Shares:








