"ملک کا روشن خیال بننا خواب سا لگتا ہے تحریر: سیدہ زہرا نقوی

برقع کیا تمبو بھی پہنا دو تو ہراسائی اور زبردستی کم نہیں ہوگی۔
اس معاشرے میں اپنے بچوں، بیٹوں بھائیوں اور دوست مردوں کو عورت کی ماں بہن بیٹی کے بجائے انسان کی حیثیت سے پہچان کراو۔
کچھ وقت پہلے ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ایک عورت برقع میں تھی لیکن ایک مرد نے اُسے بھی نہ چھوڑا۔اگر جنسی ہراسائی اور ریپ کا تعلق پردے سے ہوتا تو ایک با حجاب لڑکی کو ادھیڑ عمر آدم بھی ایسے ہراساں نہ کرتے۔
ان سب کا تعلق پدرشاہی کے بیمار نظام اور سوچ سے ہے جس میں عورت کو جنسی تسکین اور بچے پیدا کرنے کے علاوہ کچھ سمجھا ہی نہیں جاتا۔
اور کس کس کو برقع پہنائیں گے۔ یہاں تو 3 سال کی بچی اپنے محلے میں، 8 سال کا بچہ مدرسے میں، ہندو لڑکی اپنے ہاسٹل میں اور بہت سے اپنے گھر میں محفوظ نہیں۔اب صرف یہی دیکھ لیں کہ
پاکستان بچوں سے زیادتی جیسے جرائم میں دنیا بھر میں سرفہرست ہے اور ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر روز دس بچے جنسی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں۔۔۔۔
جبکہ دوسری طرف اس معاملے کو اجاگر کرنے کے لئیے کچھ وقت پہلے سرمدکھوسٹ نے بچوں سے زیادتی کے موضوع پر ایک فلم بنائی، جس پر سرمد نے اپنی تمام آمدنی لگا کر اس کو دو سالوں میں مکمل کیا اور جب ریلیز کا وقت آیا تو پابندی لگا دی۔
ریاست اگر ان چند مولوی زادوں سے خوف کا شکار ہوکر ایسے پابندیاں لگاتی رہی تو اس ملک کا روشن خیال بننا ایک خواب ہے اس کی ترقی محض ڈھونگ ہی رہے گی۔
اس ملک اس عوام اس نوجوان نسل کو سوچنے بولنے لکھنے کی آزادی دیں اگر اس ملک کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں ۔

Comments are closed.