ملک میں انتشار پھیلانے والے عناصر سے سختی سے نمٹنے کا فیصلہ

ملک میں انتشار پھیلانے والے عناصر سے سختی سے نمٹنے کا فیصلہ

ریاستی عملدآری یقینی بنانے کے لیے وفاقی حکومت کی طرف سے فیصلہ کیا گیا ہے کہ 22 مارچ بروز بدھ کو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہو گا۔ وزیراعظم کی زیرصدارت حکومتی اتحادیوں کا 6 گھنٹے طویل اجلاس ہوا۔ اس اجلاس کے دو سیشنز ہوئے، پہلے سیشن میں سیاسی قیادت کی بیٹھک ہوئی جبکہ دوسرے سیشن میں آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی و دیگر نے حکام نے شرکت کی۔ اجلاس میں ملک کی معاشی وسیاسی، داخلی وخارجی، امن وامان کی مجموعی صورتحال پر تفصیلی غور کیاگیا۔ اجلاس کو معیشت، آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی، عوامی ریلیف کے لئے وزیراعظم کے اقدامات سے آگاہ کیا گیا۔ اجلاس کے بعد جاری کردہ اعلامیہ میں بتایا گیا ہے کہ فیصلہ ہوا ہے کہ 22 مارچ کو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہو گا، اس اجلاس کے دوران ریاستی عملدراری یقینی بنانے کے لیے اہم فیصلہ ہوں گے۔

اعلامیہ میں مزید بتایا گیا کہ پولیس، رینجرز پر عمران خان کے حکم پر حملوں اور تشدد کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی۔ حکمران اتحاد کی طرف سے بتایا گیا کہ پولیس اور رینجرز عدالتی احکامات پر عملدرآمد کر رہے تھے۔ اعلامیہ کے مطابق کالعدم تنظیموں کے تربیت یافتہ جتھوں کے ذریعے ریاستی اداروں و اہلکاروں پر لشکر کشی انتہائی تشویشناک ہے۔ یہ ریاست دشمنی ہے جسے برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ تمام شواہد اور ثبوت موجود ہیں، قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔

اعلامیہ کے مطابق اجلاس کے دوران شرکاء نے کہا کہ سوشل میڈیا اور بیرون ملک اداروں خصوصاً آرمی چیف کے خلاف مہم کی شدید مذمت کرتے ہیں، بیرون ملک مقیم پاکستانی اِس مذموم ایجنڈے کا حصہ نہ بنیں۔ لسبیلہ کے شہداء کے خلاف غلیظ مہم چلانے والے عناصر ہی بیرون ملک یہ مہم چلا رہے ہیں، ایسے عناصر کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں یہ رویہ قابل قبول نہیں ہوتا، یہ آزادی اظہار نہیں۔

اعلامیہ کے مطابق عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ سلوک سے ترازو کے پلڑے برابر نہ ہونے کا تاثرمزید گہرا ہورہا ہے۔ جوڈیشل کمشن پر حملے، پولیس افسران اور اہلکاروں کو زخمی کرنے، املاک کی توڑ پھوڑ، تشدد اور جلاؤ گھیراؤ پر قانون کے مطابق سخت کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اورپی ٹی آئی وکیل خواجہ طارق رحیم کی آڈیو لیک کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے مریم نوازشریف کے بارے میں گھٹیا گفتگو کی مذمت کی گئی۔ اجلاس نے وزیراعظم شہبازشریف کی معیشت اور آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی اور مشکل حالات کے باوجود عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دینے کے اقدامات کو سراہا اور ان پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا۔

اجلاس نے عدالتی احکامات پر عملدرآمد کرنے والی پولیس، رینجرز پر عمران خان کے حکم پر حملوں اور تشدد کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے کہا کہ پٹرول بم، ڈنڈوں، غلیلوں، اسلحہ، کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے افراد پر مشتمل متشدد تربیت یافتہ جتھوں کے ذریعے ریاستی اداروں کے افسروں اور اہلکاروں پر لشکر کشی انتہائی تشویش ناک ہے۔ یہ رویہ ہرگز آئینی، قانونی، جمہوری اور سیاسی نہیں۔ ریاست کے مقابلے میں ہتھیار اٹھانا، اُن کے افسروں اور جوانوں کو نشانہ بنانا، اُن پر گولی چلانا، گاڑیاں جلانا ، عدالتی احاطوں کا محاصرہ اور دندنانا، جتھہ کشی، پولیس کی گاڑیاں نہروں میں پھینکنا، قانونی ڈیوٹی ادا کرنے والے پولیس والوں کو راستے میں روک کر تشدد کا نشانہ بنانا لاقانونیت کی انتہاء ہے جسے کوئی بھی ریاست برداشت نہیں کرسکتی۔

اس سے قبل پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے اتحاد پر مبنی وفاقی حکومت نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے پھیلائی جانے والی افراتفری کے بعد فیصلہ کیا ہے کہ ایسے عناصر کیساتھ سختی سے نمٹناجائیگا۔ ملک میں جاری سیاسی افراتفری کے دوران وزیراعظم شہباز شریف کے زیر صدارت سیاسی، قومی سلامتی کے امور پر طویل اجلاس ہوا۔ اجلاس کے دوران حساس اداروں کے سربراہان نے بھی شرکت کی جبکہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں عام انتخابات کی صورتحال کا بھی خصوصی جائزہ لیا گیا۔

اجلاس میں لاہور اور اسلام آباد میں پی ٹی آئی کارکنان کی پرتشدد کارروائیوں پر بریفنگ بھی دی گئی۔ بریفنگ کے دوران شرکاء کو بتایا گیا کہ انتشار پھیلانے والے کارکن اُجرت پر بلائے گئے تھے، گرفتار افراد سے اہم انکشافات ہوئے ہیں۔ شرکاء نے پی ٹی آئی چیئر مین سے متعلق دوٹوک پالیسی اپنانے کی رائے دیتے ہوئے کہا کہ حکومتی رٹ کی عملداری کیلئے عمران خان کو قانون کے کٹہرے میں لانا ہو گا۔ اجلاس کے دوران شرکا نے عدلیہ کے کردار پر نظر ثانی کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے کہا کہ قانون سب کیلئے برابر ہے تو سابق وزیراعظم عمران خان قانون سے بالاتر کیوں ہیں، شرپسندی سے باز نہ آنے والوں کے خلاف کارروائی کیلئے سکیورٹی اداروں کو فری ہینڈ دینے پر بھی غور کیا گیا۔

Comments are closed.